Pages

آخر ہم نے کب دینے والے کا رزق حلال کیا :اعتبار ساجد Aitibar Sajid


آخر ہم نے کب دینے والے کا رزق حلال کیا
اک دو غزلیں کہہ ڈالیں تو کونسا ایسا کمال کیا
 موتی کا اک ہار لپیٹے اپنے کالے جوڑے میں
خوشبو جیسی اس لڑکی نے ایسا استقبال کیا
صبح ہوئی پلکوں سے چلتے اس کو ہونٹوں کی کلیاں
رات کسی نے روشن دے کر ایسا مالا مال کیا
ریل سے اتری پلٹ کے دیکھا اور پھر آگے نکل گئی
اک بے نام تعارف والی! تو نے اور نڈھال کیا
اپنے گھر والوں میں بیٹھی کتنی چہک رہی ہوگی وہ
جس کے فرض ہجر میں ہن نے اپنا شکستہ حال  کیا
 صبح کو شام کیا مرمر کے،پھر بھی نہ غم کے پتھر سرکے
اک دو روز کی بات نہیں ہے ایسا سالہا سال کیا
اپنی بانہوں کی زنجیر میں اک رہرو کو باندھ لیا
اک ٹوٹا ہوا رشتہ ساجد ہم نے ایسے بحال کیا

بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر :واصف علی واصف


بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر
شیرازہ ملت ہوں ، بکھر جاتا ہوں اکثر
میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر
طوفان کے سینے میں اُتر جاتا ہوں اکثر
میں موت کو پاتا ہوں کبھی زیرِ کفِ پا
ہستی کے گماں سے بھی گزر جاتا ہوں اکثر
مرنے کی گھڑی آئے تو میں زیست کا طالب
جینے کا تقاضا ہو تو مر جاتا ہوں اکثر
رہتا ہوں اکیلا میں بھری دنیا میں واصف
لے نام مرا کوئی تو ڈر جاتا ہوں اکثر

Wasif Ali Wasif

حوالے کھو گئے، مردہ اجالے ہو گئے ہیں :اختر عثمان Akhter Usman


حوالے کھو گئے، مردہ اجالے ہو گئے ہیں
ستارے، چاند، سورج، دیپ کالے ہو گئے ہیں
یہاں آ کر ملا ہے تحفہئِ خانہ بدوشی
منادی تھی کہ ہم گھر بار والے ہو گئے ہیں
ہمارا ماس دیوِ اشتہا نے کھا لیا ہے
ہمارے جسم کتوں کے نوالے ہو گئے ہیں
ہمارا گھر تو پہلے ہی وہاں گروی پڑا تھا
ہمارے ذہن بھی اس کے حوالے ہو گئے ہیں
یہاں اک عمر دن پہ* رات کا سایہ رہا ہے
یہاں کے لوگ اس دوران کالے ہو گئے ہیں

abdul hameed adam عبدالحمید عدم


وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

گوتم کا آخری واعظ :اسلم انصاری


مرے عزيزو
مجھے محبت سے تکنے والو
مجھے عقيدت سے سننے والو
مرے شکستہ حروف سے اپنے من کی دنيا بسانے والو
مرے الم آفريں تکّلم سے انبساطِ تمام کی لازوال شمعيں جلانے والو
بدن کو تحليل کرنے والی رياضتوں پرعبور پاۓ ہوۓ،سکھوں کو تجے ہوۓ بے مثال لوگو
حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھنے والو، عزيز بچّو، ميں بجھ رہا ہوں
مرے عزيزو، ميں جل چکا ہوں
مرے شعورِ حيات کا شعلہء جہاں تاب بجھنے والا ہے
مرے کرموں کی آخری موج ميری سانسوں ميں گھل چکی ہے
ميں اپنے ہونے کی آخری حد پہ آگيا ہوں
تو سن رہے ہو، مرے عزيزو، ميں جا رہا ہوں
ميں اپنے ہونے کا داغ آخر کو دھو چلا ہوں
کہ جتنا رونا تھا، رو چلا ہوں
مجھے نہ اب انت کی خبر ہے، نہ اب کسی چيز پر نظر ہے
ميں اب تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ نيستی کے، سکوتِ کامل کے
جہلِ مطلق، (کہ مطلق ہے) ، جہلِ مطلق کے
بحرِ بے موج سے ملوں گا تو انت ہوگا
اس التباسِ حيات کا، جو تمام دکھ ہے !!
ميں دکھ اٹھا کر، مرے عزيزو، ميں دکھ اٹھا کر
حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھ گيا ہوں: تمام دکھ ہے
وجود دکھ ہے، وجود کی يہ نمود دکھ ہے
حيات دکھ ہے، ممات دکھ ہے
يہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دکھ ہے
شعور کيا ہے ؟ اک التزامِ وجود ہے، اور وجود کا التزام دکھ ہے
جدائی تو خير آپ دکھ ہے، ملاپ دکھ ہے
کہ ملنے والے جدائی کی رات ميں مليں ہيں، يہ رات دکھ ہے
يہ زندہ رہنے کا، باقی رہنے کا شوق، يہ اہتمام دکھ ہے
سکوت دکھ ہے، کہ اس کے کربِ عظيم کو کون سہہ سکا ہے
کلام دکھ ہے، کہ کون دنيا ميں کہہ سکا ہے جو ماوراۓ کلام دکھ ہے
يہ ہونا دکھ ہے، نہ ہونا دکھ ہے، ثبات دکھ ہے، دوام دکھ ہے
مرے عزيزو تمام دکھ ہے!
مرے عزيزو تمام دکھ ہے!

GOTAM KA AAKHRI WAAZ

Mere azizo
Mujhe mohabbat se takne walo
Mujhe aqeedat se sun’nay walo
Mere shakista haroof se apne mann ki dunya basanay walo
Mere alam-afreeñ takkalum se inbisaat-e tamam ki lazawal shamaiñ jalanay walo
Badan ko tehleel karnay wali riazatoñ par aboor paye hoay, sukhoñ ko tajay hoay bemisal logo
Hayat ki ramz-e aakhreeñ ko samajhnay walo, aziz bacho, main bujh raha hoon
Mere azizo main jal chuka hoon
Mere shaour-e hayat ka sho’la-e jahan-tab bujhne wala he
Mere karmoñ ki aakhri mauj meri sansooñ main ghul gai he
Main apne honay ki aakhri hadd pe aa gaya hoon
Tau sunn rahay ho, mere azizo, main ja raha hoon
Main apne honay ka daag aakhir ko dho chala hoon
Ke jitna rona tha, ro chala hoon
Mujhe na ab ant ki khabar he, na ab kisi cheez par nazar he
Main ab tau sirf itna jaanta hoon ke neesti ke, sakoot-e kaamil ke
Jahl-e mutliq, (ke mutliq he), jahl-e mutliq ke
Behr-e be-mauj se miloñ ga tau ant ho ga
Iss iltabas-e hayat ka jo taman dukh he
Main dukh utha kar, mere azizi, main dukh utha kar
Hayat ki ramz-e aakhreeñ ko samajh gaya hoon: tamam dukh he
Wajood dukh he, wajood ki yeh namood dukh he
Hayat dukh he, mamat dukh he
Yeh sari mohoom kainaat dukh he
Shao’ur kiya he? Ik iltizaam-e wajood he, aur wajood ka itlizaam dukh he
Judai tau khair aap dukh he, milap dukh he
Ke milnay walay judai ki raat main mile hain, yeh raat dukh he
Yeh zinda rehne ka, baqi rehne ka shauq, yeh ahtamam dukh he
Sakoot dukh he, ke is ke karb-e azeem ko kaun seh saka he
Kalam dukh he ke kaun dunya main keh saka he ko mawara-e kalam dukh he
Yeh hona dukh he, na hona dukh he, sabat dukh he, dawam dukh he
Meer azizo tamam dukh he
Mere azizo tamam dukh he

اے مرے کبریا!! :محسن نقوی

اے انوکھے سخی!
اے مرے کبریا!!
میرے ادراک کی سرحدوں سے پرے
میرے وجدان کی سلطنت سے ادھر
تیری پہچان کا اولیں مرحلہ!
میری مٹی کے سب ذائقوں سے جدا!
تیری چاہت کی خوشبو کا پہلا سفر!!
میری منزل؟
تیری رہگزر کی خبر!
میرا حاصل؟
تری آگہی کی عطا!!
میرے لفظوں کی سانسیں
ترا معجزہ!
میرے حرفوں کی نبضیں
ترے لطف کا بے کراں سلسلہ!
میرے اشکوں کی چاندی
ترا آئینہ!
میری سوچوں کی سطریں
تری جستجو کی مسافت میں گم راستوں کا پتہ!
میں مسافر ترا ۔۔۔۔ (خود سے نا آشنا)
ظلمتِ ذات کے جنگلوں میں گھرا
خود پہ اوڑھے ہوئے کربِ وہم و گماں کی سُلگتی رِدا
ناشناسائیوں کے پرانے مرض
گُمرہی کے طلسمات میں مبتلا
سورجوں سے بھری کہکشاں کے تلے
ڈھونڈتا پھر رہا ہوں ترا نقش پا ۔ ۔ ۔ !!
اے انوکھے سخی!
اے مرے کبریا!!
کب تلک گُمرہی کے طلسمات میں؟
ظلمتِ ذات میں
ناشناسائیوں سے اَٹی رات میں
دل بھٹکتا رہے
بھر کے دامانِ صد چاک میں
بے اماں حسرتوں کا لہو
بے ثمر خواہشیں
رائیگاں جستجو!!
اے انوکھے سخی!
اے مرے کبریا!!
کوئی رستہ دکھا
خود پہ کُھل جاؤں میں
مجھ پہ افشا ہو تُو’
اے مرے کبریا!!
کبریا اب مج ہے
لوحِ ارض و سما کے
سبھی نا تراشیدہ پوشیدہ
حرفوں میں لپٹے ہوئے
اسم پڑھنا سکھا
اے انوکھے سخی!
اے مرے کبریا!
میں مسافر ترا

آدھی زندگی :ذی شان ساحل

آسمان کا ایک حصہ
میرے دیکھنے کے لیے ہے
اور زمین کا ایک حصہ تمہارے چلنے کے لیے
سورج تمہاری آنکھوں سے نکلتا اور چاند
میرے دل میں ڈوب جاتا ہے
سمندر کا شور تمہارے دل میں بند ہے اور
دریا کی خاموشی میری آنکھوں میں
تم ایک کشتی میں سفر کرتی ہو اور میں
اس کے ساتھ ساتھ اڑنے والے بادل میں
مجھے دیوار پر بیٹھا ہوا سفید کبوتر اچھا لگتا ہے
اور تمہیں پنجرے میں قید ایک کالی چڑیا
جو اندھیرے میں، بارش کے بعد
نکلنے والی بیر بہوٹیوں کی طرح سرخ ہو جاتی ہے
تمھارا دل گرینائٹ سے بنا ایک مور ہے
جو اپنے پیروں کو دیکھ کر رو نہیں سکتا
اور میرا دل مٹی میں دھنسی ہوئی ایک بارودی سرنگ
جو تمھیں راستے سے گزرتا دیکھ کر
دھماکے سے ٹکڑے ٹکڑے ہونا بھول جاتا ہے

آ گیا آج وہ زمانہ بھی :احمد فواد


آ گیا آج وہ زمانہ بھی
کفر ٹھہرا ہے دل لگانا بھی
جس کو ہم آسمان کہتے تھے
پھٹ گیا ہے وہ شامیانہ بھی
دیکھ کر تو یقیں نہیں آتا
بند ہوگا یہ کارخانہ بھی
قیس و فرہاد اٹھ گئے اک دن
ختم ہوگا ترا فسانہ بھی
تجھ سے مل کر اداس ہوتا ہے
ہوگا دل سا کوئی دوانہ بھی
چاہے جانا بھی تجھ کو مشکل ہے
اور مشکل ہے بھول جانا بھی
یوں تو پہلے بھی کونسا گھر تھا
چھن گیا آج وہ ٹھکانہ بھی
ایک پل بھی کہیں قرار نہیں
کیا مصیبت ہے دل لگانا بھی
جو بنانے میں اتنا وقت لگا
کیا ضروری ہے وہ مٹانا بھی
جب تعلق نہیں رہا تجھ سے
چھوڑ دے اب یہ آزمانا بھی
کیا کریں اب تو اُس سے ملنے کا
کوئی ملتا نہیں بہانہ بھی
جب صبا ساتھ ساتھ چلتی تھی
آہ کیسا تھا وہ زمانہ بھی
اتنی کم گوئی بھی نہیں اچھی
سُن کے سب کی انہیں سنانا بھی
اب تو ممکن نظر نہیں آتا
دل کو اس راہ سے ہٹانا بھی
چوٹ کھانا تو کوئی بات نہ تھی
لیکن اُس پر یہ مسکرانا بھی
کیا تمہارے لئے ضروری ہے
ساری مخلوق کو ستانا بھی
ٹھیک ہے سب سے دل لگی لیکن
آ کے پھر مجھ کو سب بتانا بھی
تیری آنکھوں نے بھی کہا مجھ سے
کچھ طبعیت تھی شاعرانہ بھی
دل بھی کچھ خوش یہاں نہیں رہتا
اٹھ گیا یاں سے آب و دانہ بھی

حق بات عدالت میں روا ہی نہیں ہوتی :سبطِ علی صبا



حق بات عدالت میں روا ہی نہیں ہوتی
ماں کے لیے بیٹوں کی گواہی نہیں ہوتی

اس شہر کے لوگوں سے اماں مانگ رہا ہوں
جس شہر میں قاتل کو سزا ہی نہیں ہوتی

یہ کہہ کے زمیں زادیاں گھر سے نکل آئیں
اشراف کے سر پر تو رِدا ہی نہیں ہوتی

مصلوب کوئی جھوٹ پہن کر نہیں ہوتا
سچائی کی مجروح انا ہی نہیں ہوتی

کس طرح کروں زحمتِ مہمان نوازی
بچّوں کے لئے گھر پہ غذا ہی نہیں ہوتی

بچے کا ذہن جتنی کتابوں میں بٹ گیا :سبط علی صبا


بچے کا ذہن جتنی کتابوں میں بٹ گیا
مجبور باپ اتنے عذابوں میں بٹ گیا
اب حقِ ملکیت تو فقط ندّیوں کو ہے
سرسبز کھیت کتنے دوآبوں میں بٹ گیا
مٹی کا جسم تیرنے اترا تھا جھیل میں
جب ڈوبنے لگا تو حبابوں میں بٹ گیا
وہ شہر جو کہ مرکزِ عالم نگاہ تھا
بھونچال آ گیا تو خرابوں میں بٹ گیا
میں نے تو اہلِ قریہ سے پوچھا تھا گھر کا حال
میرا سوال کتنے سوالوں میں بٹ گیا
ننھی سی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر صباؔ
انساں طلسمِ صبر کے خوابوں میں بٹ گیا

عمر بھر خون پسینے میں نہائے جاؤ :سبط علی صبا


عمر بھر خون پسینے میں نہائے جاؤ
روز پیوند قباؤں میں سجائے جاؤ
چڑھتے سورج کے پجاری ہو، ہوا کے رخ پر
روز خوش رنگ پتنگوں کو اڑائے جاؤ
ڈوب جاؤ کہ کسی شخص کو معلوم نہ ہو
اپنے احساس کو پانی میں بہائے جاؤ
قحط پھولوں کا ہے پت جھڑ کا زمانہ آیا
کاغذی پھولوں سے کمروں کو سجائے جاؤ
اس نئے دور کی تاریخ میں شامل ہو کر
آسمانوں سے ستاروں کو گرائے جاؤ

ترے آنے کا دھوکہ سا رہا ہے :ناصر کاظمی


ترے آنے کا دھوکہ سا رہا ہے
دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے
عجب ہے رات سے آنکھوں کا عالم
یہ دریا رات بھر چڑھتا رہا ہے
سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل
مگر وہ شہر جو پیاسا رہا ہے
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے
کسے ڈھونڈو گے ان گلیوں میں ناصر
چلو اب گھر چلیں دن جا رہا ہے

بارہواں کھلاڑی :افتخار عارف

خو شگوارموسم میں
ان گنت تماشائی
اپنی اپنی ٹیموں کو
داد دینے آتے ہیں
اپنے اپنے پیاروں کا
حو صلہ بڑ ھا تے ہیں
میں الگ تھلگ سب سے
با رہویں کھلا ڑی کو
ہوٹ کر تا رہتا ہوں
بارہواں کھلاڑی بھی
کیا عجب کھلا ڑی ہے
کھیل ہو تا رہتا ہے
شور مچتا رہتا ہے
داد پڑ تی رہتی ہے
اور وہ الگ سب سے
انتظار کرتاہے
ایک ایسی ساعت کا
ایک ایسے لمحے کا
جس میں سانحہ ہوجائے
پھر وہ کھیلنے نکلے
تالیوں کے جھر مٹ میں
ایک جملہ خوش کن
ایک نعرہ تحسین
اس کے نام پر ہوجائے
سب کھلا ڑیوں کے ساتھ
وہ بھی معتبر ہوجائے
پر یہ کم ہی ہوتاہے
پھر بھی لوگ کہتے ہیں
کھیل سے کھلاڑی کا
عمر بھر کا رشتہ ہے
عمر بھر کایہ رشتہ
چھو ٹ بھی تو سکتا ہے
آخری وسل کے ساتھ
ڈوب جانے والا دل
ٹو ٹ بھی توسکتاہے

ساز فقیرانہ :مجید امجد


گلوں کی سیج ہے کیا، مخملیں بچھونا کیا
نہ مل کہ خاک میں گر خاک ہوں تو سونا کیا
فقیر ہیں، دو فقیرانہ ساز رکھتے ہیں
ہمارا ہنسنا ہے کیا اور ہمارا رونا کیا
ہمیں زمانے کی ان بیکرانیوں سے کام
زمانے بھر سے ہے کم دِل کا ایک کونا کیا
نظامِ دہر کو تیورا کے کس لئے دیکھیں
جو خود ہی ڈوب رہا ہو اسے ڈبونا کیا
نہ رو کہ ہیں ترے ہی اشک ماہ و مہر امجد
جہاں کو رکھنا ہے تاریک اگر تو رونا کیا

بس سٹینڈ پر :مجید امجد


”خدایا اب کے یہ کیسی بہار آئی“
” خدا سے کیا گلہ بھائی!
خدا تو خیر کس نے اس کا عکسِ نقش پا دیکھا
نہ دیکھا بھی تو کیا دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا
مگر توبہ میری توبہ، یہ انساں بھی تو آخر اک تماشا ہے
یہ جس نے پچھلی ٹانگوں پہ کھڑے ہونا بڑے جتنوں سے سیکھا ہے
ابھی کل تک جب اس کے ابروؤں تک موئے پیچاں تھے
ابھی کل تک جب اس کے ہونٹ محرومِ زنَخداں تھے
ردائے صد زماں اوڑھے لرزتا، کانپتا بیٹھا
ضمیرِ سنگ سے بس ایک چنگاری کا طالب تھا
مگر اب تو یہ اونچی ممٹیوں والے جلو خانوں میں بستا ہے
ہمارے ہی لبوں سے مسکراہٹ چھین کر اب ہم پہ ہنستا ہے
خدا اس کا، خدائی اس کی، ہر شے اس کی، ہم کیا ہیں
چمکتی موٹروں سے اڑنے والی دھول کا ناچیز ذرہ ہیں
ہماری ہی طرح جو پائمالِ سطوتِ میری و شاہی ہیں
لکھوکھا، آبدیدہ، پا پیادہ، دل زدہ، واماندہ راہی ہیں
جنہیں نظروں سے گم ہوتے ہوئے رستوں کی غم پیما لکیروں میں
دکھائی دے رہی ہیں آنے والی منزلوں کی دھندلی تصویریں “
” ضرور اک روز بدلے گا نظام قسمتِ آدم
بسے گی اک نئی دنیا،سجے گا اک نیا عالم
شبستاں میں نئی شمعیں، گلستاں میں نیا موسم “
” وہ رُت اے ہم نفس جانے کب آئے گی
وہ فصلِ دیر رس جانے کب آئے گی
یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی؟ “

آئینہ بن کر کبھی اُن کو بھی حیراں دیکھیے :منیر نیازی


آئینہ بن کر کبھی اُن کو بھی حیراں دیکھیے
اپنے غم کو اُن کی صورت سے نمایاں دیکھیے
اس دیارِ چشم و لب میں دل کی یہ تنہائیاں
اِن بھرے شہروں میں بھی شامِ غریباں دیکھیے
عمر گزری دل کے بُجھنے کا تماشا کر چکے
کس نظر سے بام و در کا یہ چراغاں دیکھیے
دیکھیے اب کے برس کیا گُل کھِلاتی ہے بہار
کتنی شدّت سے مہکتا ہے گلستاں دیکھیے
اے منیر اِس انجمن میں چشمِ لیلیٰ کا خیال
سردیوں کی بارشوں میں برق لرزاں دیکھیے

اندھا کباڑی :ن م راشد


شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ھوئے
پا شکستہ سر بریدہ خواب
جن سے شہر والے بے خبر!
گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب
کہ ان کو جمع کر لوں
دل کی بھٹی میں تپاؤں
جس سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
جیسے نو آراستہ دولھوں کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمت رہ ملے!
“خواب لے لو خواب ـــــــــــ ”
صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا ـــــــــ
“خواب اصلی ہیں کہ نقلی”
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو!
خواب گر میں بھی نہیں
صورت گر ثانی ہوں بس ـــــــ
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!
شام ھو جاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا ـــــــ
“مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب ـــــــــ”
“مفت” سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ ــــــــــ
“دیکھنا یہ “مفت” کہتا ہے
کوئی دھوکا نہ ہو!
ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب
بھک سے اڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب ـــــــــ
جی نہیں کس کام کے؟
ایسے کباڑی کے یہ خواب
ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!”
رات ہو جاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں
رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
“یہ لے لو خواب ــــــــ”
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو، خواب ــــــــــ
میرے خواب ـــــــــــ
خواب ـــــــــ میرے خواب ـــــــــ
خو ا ا ا ا ب ــــــــــــ
ان کے د ا ا ا ا م بھی ی ی ی ـــــــــــــ”

زندگی سے ڈرتے ہو؟ :ن م راشد


زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
’ان کہی‘ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
آس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!
پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، ’بے ریا‘ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خدا وندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
روشنی سے ڈرتے ہو!
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
زات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک آٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں،
تم ابھی سے ڈرتے ہو!

میں اسے واقف الفت نہ کروں :ن م راشد


سوچتا ہوں کہ بہت سادہ معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیر ِغم ِالفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں
سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں، خوگر ِآلام نہیں
سحر عیش میں اس کی اثر ِشام نہیں
زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں!
سوچتا ہوں کہ محبّت ہے جوانی کی خزاں
اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا
سوچتا ھوں کہ غم ِدل نہ سناؤں اس کو
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کرو
خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں
سوچتا ھوں کہ جلا دے گی محبّت اس کو
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
خود تو وہ آتش جذبات میں جل جائے گی
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی
سوچتا ھوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں اسے واقف الفت نہ کروں ______

ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی :ابن انشاء

ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی
ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
کچھ سال ،مہینے، دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ہاںا پنی جاں کے خزانے سے
ہاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں
کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں
جب ناما دھر کا آیا کیوں
سب نے سر کو جھکایا ہے
کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں
جنہیں جاننے والے جانے ہیں
کچھ پیار ولار کے دھندے ہیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں
ہم مانگتے نہیں ہزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ہاں ،سود بیاج بھی دے لیں گے
ہں اور خراج بھی دے لیں گے
آسان بنے، دشوار بنے
پر کوئی تو دیون ہار بنے
تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے
کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے
کیوں اس مجمع میں آئی ہو
کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو
یہ کاروبار کی باتیں ہیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں
ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ہو
تب سمجھو جلد جدائی ہو
اب گیت گیاسنگیت گیا
ہاں شعر کا موسم بیت گیا اب پت جھڑ آئی پات گریں
کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں
یہا پنے یار پرانے ہیں
اک عمر سے ہم کو جانے ہیں
ان سب کے پاس ہے مال بہت
ہاں عمر کے ماہ و سال بہت
ان سب کو ہم نے بلایا ہے
اور جھولی کو پھیلایا ہے
تم جاؤ ان سے بات کریں
ہم تم سے نا ملاقات کریں
کیا پانچ برس ؟
کیا عمرا پنی کے پانچ برس ؟
تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟
کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟
جب عمر کا آخر آتا ہے
ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی زالی ہے
ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے
تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے
پھر تم ہو ہماری کون بھلا
ہاں تم سے ہمارا رشتہ ہے
کیاسود بیاج کا لالچ ہے ؟
کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس، یہ چار برس
چھن جائیں تو لگیں ہزار برس
سب دوست گئے سب یار گئے
تھے جتنے ساہو کار ، گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے
یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟
ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟
ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے
جب مانگیں جیون کی گھڑیاں
گستاخ آنکھوں کت جا لڑیاں
ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے
جو ساعت و ماہ و سال نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں
لو اپنے جی میں اتار لیا
لو ہم نے تم کو ادھار لیا

پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم :امجد اسلام امجد


پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا
سُورج کی بس ایک کِرن سے گھُٹ جاتا ہے دَم
رنگوں کو کلیوں میں جینا کون سکھاتا ہے!
شبنم کیسے رُکنا سیکھی! تِتلی کیسے رَم!
آنکھوں میں یہ پَلنے والے خواب نہ بجھنے پائیں
دل کے چاند چراغ کی دیکھو، لَو نہ ہو مدّھم
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم!

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم :محسن نقوی

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
دیدۂ دل کی بے انت شاہی میں ہم
زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم
اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو
فکر کے مو قلم سے تراشی ہوئی
اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو
اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو، اپنی تقدیر کو
یوں سنبھالیں گے ، مثلِ چراغِ حرم
جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی
بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں
پہرہ داروں کی صورت چھپائے رک ہے
جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم -- پھر ارادہ کریں
جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں
جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں
جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں
جتنے چہروں کے مرجان زرداب ہیں
جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں
جتنے گل رنگ مہتاب گہنا گئے -- جتنے معصوم رخسار
مرجھا گئے
جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں
سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں، تازگی بخش دیں
بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم
مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم
دیدہ و دل کی بے انت شاہی میں ہم
زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لئے
اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل
صرف آرائشِ پیرہن کے لئے ، مسکرائیں گے رنج و غم
دہر میں
اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لئے
طعنِ احباب، سرمایہ کج دل، بجز اغیار سہہ لیں گے
فن کے لئے
آؤ وعدہ کریں
سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئے
جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے
دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم
آسمانوں سے اونچا رکھیں گے عَلم
آؤ وعدہ کریں

آپ اپنا غبار تھے ہم تو :جون ایلیا


آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو
اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
شرم ہے اپنی بار باری کی
بے سبب بار بار تھے ہم تو
کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو
تم نے کیسے بُلا دیا ہم کو
تم سے ہی مستعار تھے ہم تو
خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو
سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو
جانِ من جاں نثار تھے ہم تو
خود کو دورانِ حال میں اپنے
بے طرح ناگوار تھے ہم تو
تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد
نادرِ روزگار تھے ہم تو
ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو

ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار :احمد ندیم قاسمی


ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
اک لمحہ کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
میں تیرے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیل پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید
اس کے مرمر میں سیاہ خوں جھلک جاتا ہے
اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر
میرے الہام تیرا ذہن ِ رسا بھی پتھر
اس زمانے میں ہر فن کا نشان پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے
ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار