وہی کہانی، مگر ایک باب ختم ہوا
اب اگلے باب کا کردار
اس فسانۂ رنگیں میں تیرے نام کا ہے
مگر یہ ڈر ہے، کہیں اختتام سے پہلے
وہ ایک نام کہ جو تیرے نام سے پہلے
گلاب رُت میں کھلا تھا
تو میری آنکھ نے ایک ایک حرف
برگ ستارہ نما سمجھ کے پڑھا تھا
طلوع شام سے پہلے
کہانی پھر وہی کردار لے کے پھیلتی جائے
تو اس کے بعد مرا اضطراب ختم نہ ہو
کہیں یہ عمر رواں کی کتاب ختم نہ ہو
اب اگلے باب کا کردار
اس فسانۂ رنگیں میں تیرے نام کا ہے
مگر یہ ڈر ہے، کہیں اختتام سے پہلے
وہ ایک نام کہ جو تیرے نام سے پہلے
گلاب رُت میں کھلا تھا
تو میری آنکھ نے ایک ایک حرف
برگ ستارہ نما سمجھ کے پڑھا تھا
طلوع شام سے پہلے
کہانی پھر وہی کردار لے کے پھیلتی جائے
تو اس کے بعد مرا اضطراب ختم نہ ہو
کہیں یہ عمر رواں کی کتاب ختم نہ ہو
No comments:
Post a Comment