Pages

مِری پتّھر آنکھیں :مصطفیٰ زیدی Mustafa Zaidi



اب کے مٹّی کی عبارت میں لِکھی جائے گی
سبز پتّوں کی کہانی ، رُخ ِ شاداب کی بات
کل کے دریاؤں کی مٹتی ہُوئی مُبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی
بُوند بھر نَم کو ترس جائے گی بےسُود دعا
نَم اگر ہو گی کوئی چیز تو میری آنکھیں
میری پلکوں کے دریچے ، مری بنجر آنکھیں
میرا اُجڑا ہوا چہرہ ، مری پتّھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں ، اور یہ بے اَبر فلک
آج اُس دیس ، کل اِس دیس کا وارث ہو گا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اُسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دُھوپ کا حرف ِ جنوں ، لُو کا وصّیت نامہ
اور مرے شہر ِ طلسمات کی بےدَر آنکھیں
مری بےدَر ، مری بنجر ، مری پتّھر آنکھیں

No comments:

Post a Comment