آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے
خامشی طرزِ ادا چاہتی ہے
خامشی طرزِ ادا چاہتی ہے
آج پھر وسعتِ صحراۓ جنوں
پرسشِ آبلہ پا چاہتی ہے
پرسشِ آبلہ پا چاہتی ہے
دیکھ کیفیّتِ طوفانِ بہار
بوۓ گل رنگِ ہوا چاہتی ہے
بوۓ گل رنگِ ہوا چاہتی ہے
موت آرائشِ ہستی کے لۓ
خندۂ زخمِ وفا چاہتی ہے
خندۂ زخمِ وفا چاہتی ہے
دل میں اب خارِ تمنّا بھی نہیں
زندگی برگ و نوا چاہتی ہے
زندگی برگ و نوا چاہتی ہے
سوچ اے دشمنِ اربابِ وفا
کیوں تجھے خلقِ خدا چاہتی ہے
کیوں تجھے خلقِ خدا چاہتی ہے
اک ہمیں بارِ چمن ہیں ورنہ
غنچے غنچے کو صبا چاہتی ہے
غنچے غنچے کو صبا چاہتی ہے
No comments:
Post a Comment