آتش ہو ، اور معرکہء خیر و شر نہ ہو
پروانگی عبث ہے جو رقص۔ شرر نہ ہو
پروانگی عبث ہے جو رقص۔ شرر نہ ہو
یہ کار۔ عشق بھی ہے عجب کار ۔ناتمام
سمجھیں کہ ہو رہا ہے مگر عمر بھر نہ ہو
سمجھیں کہ ہو رہا ہے مگر عمر بھر نہ ہو
اک لمحہء کمال کہ صدیوں پہ پھیل جائے
اک لحظہء وصال مگر مختصر نہ ہو
اک لحظہء وصال مگر مختصر نہ ہو
اک دشت۔بے دلی میں لہو بولنے لگے
ایسے میں ایک خواب کہ تو ہو مگر نہ ہو
ایسے میں ایک خواب کہ تو ہو مگر نہ ہو
چہرے پہ سائے میں بھی خراشیں دکھائی دیں
آئینہءحیات پہ اتنی نظر نہ ہو
آئینہءحیات پہ اتنی نظر نہ ہو
اک آستاں کہ جس پہ ابد تک پڑے رہیں
اک گلستاں کہ جس میں صبا کا گذر نہ ہو
اک گلستاں کہ جس میں صبا کا گذر نہ ہو
مٹی تغارچوں میں پڑی سوکھتی رہے
پیکر تراشنے کے لئے کوزہ گر نہ ہو
پیکر تراشنے کے لئے کوزہ گر نہ ہو
اک یاد ۔ خوش جمال جواز حیات ہے
اک محور خیال ہے یہ بھی اگر نہ ہو
اک محور خیال ہے یہ بھی اگر نہ ہو
اک لفظ جس کی لَو میں دمکتا رہے دماغ
اک شعر جس کی گونج کہیں پیشتر نہ ہو
اک شعر جس کی گونج کہیں پیشتر نہ ہو
اک بات کی چڑھائی کہ دَم ٹوٹنے لگیں
کہنے کا شوق ہو مگر اتنا ہنر نہ ہو
کہنے کا شوق ہو مگر اتنا ہنر نہ ہو
ایسا بھی کیا کہ یاد لہو میں گھلی رہے
ایسا بھی کیا کہ عمر۔گذشتہ بسر نہ ہو
ایسا بھی کیا کہ عمر۔گذشتہ بسر نہ ہو
یوں خط ۔ ہجر کھینچئے اپنے اور اس کے بیچ
دونوں طرف کی سانس ادھر سے ادھر نہ ہو
دونوں طرف کی سانس ادھر سے ادھر نہ ہو
دونوں طرف کا شور برابر سنائی دے
دونوں طرف کسی کو کسی کی خبر نہ ہو
دونوں طرف کسی کو کسی کی خبر نہ ہو
اک شام جس میں دل کا سبوچہ بھرا رہے
اک نام جس میں درد تو ہو، اس قدر نہ ہو
اک نام جس میں درد تو ہو، اس قدر نہ ہو
شام آئے اور گھر کے لئے دل مچل اٹھے
شام آئے اور دل کے لئے کوئی گھر نہ ہو
شام آئے اور دل کے لئے کوئی گھر نہ ہو
No comments:
Post a Comment