Pages

ایک نظم : احمد ندیم قاسمی Ahmad nadeem qasmi

ریستوراں کے فرش پہ لرزاں ساۓ رقاصاؤں کے
ذھن میں جیسے گڈ مڈ ہو کر ناچیں راز خداؤں کے
چھنن چھنن چھن ! اے رقاصہ ! فن پہ یہ آوازے کیوں؟
جس کی لؤ سے پھول لجائیں، اس چہرے پہ غازے کیوں
یوں تک جیسے چاند کی کرنیں ، یوں سن جیسے ربّ قدیر
وقت کے اس لمحے کا تاثرّ عالم گیر ہے عالم گیر
(2)
راوی کی لہروں پہ رواں ہیں قاشیں چاند ستاروں کی
کس منزل کو لپکی یہ نورانی فوج سواروں کی
چپ شپ !۔ جھکتے تنتے مانجھی! تجھ کو سبک ڈانڈوں کی قسم
دھیرے دھیرے ہو لے ہولے، کاٹ یہ ابرو کا سا خم
یوں مڑ جیسے پھول کی پتی، یوں چل جیسے سر گوشی
وقت کے اس لمحے کا تقاضا مدہوشی ہے مد ہوشی
(3)
کھیتوں کی ہر یاول پر یہ دھبے ہیں دہقانوں کے
یا گیتی نے اگلے بو سیدہ تابوت انسانوں کے
سر سر ! دھپ دھپ! اے محنت کش!چھوڑ درانتی توڑ کدال
چاک ہوئ دھرتی کی چھاتی مجھ کو اس محشر سے نکال
چار طرف سے گھیر چکے ہیں جلتی سانسوں کے پیچاک
وقت کے اس لمحے کی حقیقت، آتش ناک ہے آتش ناک
(4)
یہ کس راجہ کا ایواں ہے ملبے کے انباروں میں
جیسے بلوائ کی بیٹھک، لٹے لٹے بازاروں میں
الٹی سانسیں اٹکی آہیں ، اے راہی یہ راز ہیں کیا
پچکے پیٹ دریدہ رانیں، زیست کے یہ انداز ہیں کیا
راجہ اٹھا ڈال کے اپنی بقچی میں فردا کا نظام
وقت کے اس لمحے کا ارادہ خون آشام ہے خون آشام!
(5)
معصوم انساں کے لاشے پہ فتح کے پرچم لہراۓ
استبداد کی بیخ کنی میں کتنے انساں کام آۓ
ہاریں استبدادی قومیں، لیکن کس کی جیت ہوئ
یورپ کی بے رحم سیاست، پورب کی کب میت ہوئ
تمغوں کی تقسیم ہوئ ہے یورپ کے بلوانوں میں
“مال غنیمت” سجتا ہے یورپ کے تمدن خانوں میں
(6)
نو میدی کی دھند میں غلطاں جگنو احساسات کے ہیں
اوّس کے پرّاں قطرے ہیں یا تارے پچھلی رات کے ہیں
جگنو اڑتے شعلے بن کر دھرتی سے ٹکراتے ہیں
جھلمل جھلمل، ڈگمگ ڈگمگ، ہچکولے سے آتے ہیں
موت سے بھڑ جانے کے ارادے اور جینے کی تیاری
وقت کے اس لمحے کا بلاوا بیداری ہے بیداری

No comments:

Post a Comment