Pages

اک شہر امکاں جاگتا ہے :خالد علیم Khalid Aleem

ابھی تہذیب زندہ ہے
شمیسی کے پرانے اور کچھ کچے مکانوں میں
پرانی وضع کے کچھ لوگ باقی ہیں
ابھی اس شہر کے افسردہ دامن میں پرانا شہر بستا ہے
جہاں اس کے شکستہ بام و در میں زندگی کا حسن باقی ہے
گلی کے موڑ پر اک بوڑھا اعرابی کھڑا ہے
جس کی آنکھوں میں ابھی تک
نجد کے صحرا میں چلتے قافلہ در قافلہ
ناقہ سواروں کے سفر کی گرد رخشندہ ہے
چہرے کی نمایاں سلوٹوں میں تہ بہ تہ
محمل نشینوں کی نظر کا لمس زندہ ہے
ابھی اس بوڑھے اعرابی کے ان رعشہ زدہ ہاتھوں میں
خیموں کی طنابوں کی حرارت جاگتی ہے-- اور--
ابھی اس شہر سے کچھ دور صحرا کے افق آثار دامن میں
کئی خیمہ نشیں شاموں کا سوز و ساز باقی ہے
ابھی صحرا کے وسعت آشنا ناقہ سواروں کا سفر جاری ہے
اونٹوں کی نکیلوں سے حدی کی لے
ہواؤں میں مہکتی ہے
جرس کے شور میں، ریگ رواں کے زیر و بم میں
آج بھی کتنے شتر بانوں کے نغمے گونجتے ہیں
اور فضاؤں میں بنی عامر کی آوازوں کا جمگھٹ
اب بھی جسم و جاں میں اک ہلچل مچاتا ہے
ابھی تہذیب زندہ ہے
ابھی تہذیب مر سکتی نہیں اک شہر امکاں جاگتا ہے

No comments:

Post a Comment