Pages

اور :احمد فواد Ahmad Fawad


اور ہم نے ایک دوسرے کو کھو دیا
بادل دور سمندر کی آغوش میں پڑے سوتے رہے
بلیاں برسرِ عام
ہم بستری کے حق میں پر تشدد مظاہرے کرتی رہیں
شہر گالم گلوچ میں مصروف رہے
پہاڑ احمقوں کی طرح کھڑے آسمان کا منہ تکتے رہے
دریا ڈھلانوں پر پھسلتے رہے
گاؤں لاپرواہی سے سر جھکائے اونگھتے رہے
کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی
جیسے ناخن کو گوشت سے الگ کردیا جائے
وہ چیخ کسی نے نہیں سنی
کوئی دروازہ نہیں کھلا
بس
ایک چھوٹے سے پرندہ نے اس درد کو سمیٹ لیا
اور
ایک گیت بن کر ان خالی صفحات میں اڑنے لگا

No comments:

Post a Comment