بُجھ گئے روزن گھروں کے شہر صحرا ہو گیا
چاند پھر سرما کی اس بستی میں تنہا ہو گیا
چاند پھر سرما کی اس بستی میں تنہا ہو گیا
چُور ہو کر ہر صدا گھاٹی کی تہہ میں سو گئی
خواب کوہِ بے نمو کا اور گہرا ہو گیا
خواب کوہِ بے نمو کا اور گہرا ہو گیا
اپنے درختوں کے نگر کب پھل کھلائے گی ہوا
پتے گنتے ہاتھ ہارے، شوق اندھا ہو گیا
پتے گنتے ہاتھ ہارے، شوق اندھا ہو گیا
اک ہلورا بھر وہ شاخ سبز میرے ساتھ تھی
پھر میری آنکھوں کے آگے باغ پیلا ہو گیا
پھر میری آنکھوں کے آگے باغ پیلا ہو گیا
لے یہاں تازہ شکستوں کی لکیریں ثبت کر
تُو نے جو اِس ہاتھ پر لکھا ہوا تھا ہو گیا
تُو نے جو اِس ہاتھ پر لکھا ہوا تھا ہو گیا
No comments:
Post a Comment