Pages

باغ جناح کی شب ابتدا : خالد علیم Khalid Aleem

چاند نکلا ہے
مگر چاند تو پہلے بھی نکلتا تھا
یہ چاند، آج کا چاند
روش سبزہ و گل پر ہی اتر آیا ہے
مرمریں گھاس پہ جیسے کوئی آہستہ خرام
دل کے افسردہ دروبام تک آ پہنچا ہو
میری آنکھوں کے دریچوں میں اترتا ہوا چاند
اب تولگتا ہے رگ جاں میں اتر آیا ہے
اور دل کے کسی اندوہ گزشتہ کی فسردہ لہریں
سامنے باغ کے اُس قطعۂ تاریک کے ٹھہرے ہوئے پانی میں
دھڑک اٹھی ہیں
قمقمے باغ کے روشن ہیں ستاروں کی طرح
اور مرے پاس کہیں
ایک بے نام صدا گونج اٹھی ہے
مری خاموش سماعت میں ترے پاؤں کی چاپ
چاندنی رات کے خاموش تحیر کی طرح پھیل رہی ہے
کوئی آوارہ و بے راہ تصور مرے سینے میں چمک اٹھا ہے
طاق جاں میں کوئی شعلہ سا دہک اٹھا ہے

No comments:

Post a Comment