Pages

انسان :احمد ندیم قاسمی Ahmad Nadeem Qasmi

خدا عظیم، زمانہ عظیم، وقت عظیم
اگر حقیر ہے کوئی یہاں تو صرف ندیم
وہی ندیم، وہی لاڈلا بہشتوں کا
وہی ندیم، جو مسجود تھا فرشتوں کا
وہ جس نے جبر سے وجدان کو بلند کہا
وہ جس نے وسعتِ عالم کو اک زقند کہا
وہ جس نے جرمِ محبت کی جب سزا پائی
تو کائنات کے صحراؤں میں بہار آئی
وہ جس نے فرش کو بھی عرش کا جمال دیا
وہ جس نے تند عناصر کو ہنس کے ٹال دیا
بڑھا تو راہیں تراشیں، رُکا تو قصر بنائے
اُڑا تو گیت بکھیرے، جھکا تو پھول کھلائے
وہ جس کے نام سے عظمت قسم اٹھاتی ہے
اسی کی آج خدائی ہنسی اڑاتی ہے
نہیں ۔۔۔کسی سے بگڑنا مرا سبھاؤ نہیں
مری سرشت میں گلزار ہیں، الاؤ نہیں
ہزار بار شکستوں پہ مسکرایا ہوں
مصیبتوں کی گرج میں بھی گنگنایا ہوں
اگر حریمِ بقا سے فنا ملی ہے مجھے
اسی فنا میں بقا کی ادا ملی ہے مجھے
خدا شناس بھی ہوں اور خود شناس بھی ہوں
خدا سے دور بھی ہوں اور خدا کے پاس بھی ہوں
یہاں زمیں پہ بھی تخلیق کام ہے میرا
کہ کبریائی سے منسوب نام ہے میرا
زمیں مری ہے، فضا بھی مری، خلا بھی مری
خلا مری ہے تواقلیم ماورا بھی مری
خدا کے ذہن کا فن پارۂ عظیم ہوں میں
تمام دہر کا دولھا ہوں میں۔۔۔۔ندیم ہوں میں

امتناع کا مہینہ :اختر حسین جعفری Akhter Hussain Jaffri

اس مہینے میں غارت گری منع تھی، پیڑ کٹتے نہ تھے، تیر بکتے نہ تھے
بہرِ پرواز محفوظ تھے آسماں
بے خطر تھی زمیں مستقر کے لیے
اس مہینے میں غارت گری منع تھی یہ پرانے صحیفوں میں مذکور ہے
قاتلوں، رہزنوں میں یہ دستور تھا، اس مہینے کی حرمت کے اعزاز میں
دوش پر گردنِ خم سلامت رہے
کربلاؤں میں اترے ہوئے کاروانوں کی مشکوں کا پانی امانت رہے
میری تقویم میں بھی مہینہ ہے یہ
اس مہینے کئی تشنہ لب ساعتیں، بے گناہی کے کتبے اٹھائے ہوئے
روز و شب بین کرتی ہیں دہلیز پر اور زنجیرِ در مجھ سے کھلتی نہیں
فرشِ ہموار پر پاؤں چلتا نہیں
دل دھڑکتا نہیں
اس مہینے میں گھر سے نکلتا نہیں

آندھی چلی تو گرد سے ہر چیز اَٹ گئی :سبط علی صبا Sibt e ali saba


آندھی چلی تو گرد سے ہر چیز اَٹ گئی
دیوار سے لگی تری تصویر پھٹ گئی
لمحوں کی تیز دوڑ میں، میں بھی شریک تھا
میں تھک کے رک گیا تو مری عمر گھٹ گئی
اس زندگی کی جنگ میں ہر اک محاذ پر
میرے مقابلے میں مری ذات ڈٹ گئی
سورج کی برچھیوں سے مرا جسم چھد گیا
زخموں کی سولیوں پہ مری رات کٹ گئی
احساس کی کرن سے لہو گرم ہو گیا
سوچوں کے دائروں میں تری یاد بٹ گئی

آخر کار یہ ساعت بھی قریب آ پہنچی :حبیب جالب Habib Jalib


آخر کار یہ ساعت بھی قریب آ پہنچی
تو مری جان کسی اور کی ہو جائے گی
کل تلک میرا مقدر تھی تری زلف کی شام
کیا تغیر ہے اب غیر کی کہلائے گی
میرے غم خانے میں تو اب نہ کبھی آئے گی
تیری سہمی ہوئی معصوم نگاہوں کی زباں
میری محبوب کوئی اجنبی کیا سمجھے گا
کچھ جو سمجھا بھی تو اس عین خوشی کے ہنگام
تیری خاموش نگاہی کو حیا سمجھے گا
تیرے بہتے ہوئے اشکوں کو ادا سمجھے گا
میری دم ساز زمانے سے چلی آتی ہیں
رہنِ غم وقفِ الم سادہ دلوں کی آنکھیں
یہ نیا ظلم نہیں پیار کے متوالوں پر
ہم نے دیکھیں یونہی نم سادہ دلوں کی آنکھیں
اور رولیں کوئی دم سادہ دلوں کی آنکھیں

عید ملنے کا اِک بہانہ ہوا :مجید لاہوری Majeed Lahori


عید ملنے کا اِک بہانہ ہوا
کاٹ کر جیب وہ روانہ ہوا

لیڈری میں بھلا ہوا ان کا
“بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا“

ایک مینڈھے پہ ہی نہیں موقوف
تجھ پہ قربان اِک زمانہ ہوا

ہے یہ اِک یادگار “ویول“ کی
“لاڑکانہ“ سے “لڑکانہ“ ہوا

یہ عوامی بنا رہے ہیں “لیگ“
کیا مذاق ان کا عامیانہ ہوا

جہاں رہتے تھی “زہرہ جان“ کبھی
پیر صاحب کا آستانہ ہوا

اپنا “بُندو“ بھی بن گیا لیڈر
جب الاٹ ایک کارخانہ ہوا

ہم تو بے دال کے رہے بودم
پا کے دولت وہ “دولتانہ“ ہوا

میں لکھوں گا مجید یونہی غزل
تنگ اگر ان میں قافیہ نہ ہوا

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ :احمد ندیم قاسمی Ahmad nadeem Qasmi


لکھوں تو کیا لکھوں‫!
‫کیسے لکھوں!
لفظوں کی ٹوٹی ہڈّیوں کو کیسے جوڑوں
سبھی روندے ہوۓ حرفوں سے،
نقطوں سے
جو پھوٹا پڑ رہا ہے جیتا جیتا خوں
صفحۂ قرطاس پر چنگاریاں بن کر ٹپکتا ہے
زباں کچلی پڑی ہے
اور اگر بولوں
تو لگتا ہے
مجھے چیخوں کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
جنازوں پر یہاں زندہ جنازے سینہ زن ہیں
کچھ اگر باقی ہے تو رگ و پے میں اترتا درد ہے
قلب و جگر کو چیرتا دُکھ ہے
مجھے تو یہ کہنا نہیں آتا
کچھ آتا ہے
تو ایسے المیے پر
اور عناصر کے مقابل اپنی فطری بے بسی پر
ٹوٹ کر رہنا ہی آتا ہے
لکھوں تو کیا لکھوں!

آخری بار ملو :مصطفیٰ زیدی Mustafa Zaidi


آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں ،کوئ اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے،زخمِ تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے ،شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئ امید تو آنکھیں چھن جائیں
اُس ملاقات کا اس بار کوئ وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جُنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا نہ شکایات کا وقت
لُٹ گئ شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوئ نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگِ جاں کا کئ رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارضِ و رُخسار ملو
ماتمی ہیں دَمِ رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ،نہ اقرار،نہ انکار،ملو
آخری بار ملو۔

یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی :اختر شیرانی Akhter Shirani


یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِس وادی کی شہزادی تھی اور شاہانہ رہتی تھی
کنول کا پُھول تھی ، سنسار سے بیگانہ رہتی تھی
نظر سے دُور ، مثلِ نکہت ِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
انہی صحراؤں میں وہ اپنے گلّے کو چراتی تھی
انہی چشموں پہ وہ ہر روز ،منہ دھونے کو آتی تھی
انہی ٹیلوں کے دامن میں وہ آزادانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے تلے، وہ جو کھنڈر سے جھلملاتے ہیں
یہ سب ریحانہ کے معصوم افسانے سُناتے ہیں
وہ ان کھنڈروں میں اِک دن، صورتِ افسانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
مرے ہمدم ، یہ نخلستان، اِک دن، اُس کا مسکن تھا
اِسی کے خرمئی آغوش میں اُس کا نشیمن تھا
اسی شاداب وادی میں وہ بے باکانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہ پُھولوں کی حسین آبادیاں ، کاشانہ تھیں اُس کا
وہ اِک بُت تھی یہ ساری وادیاں بُت خانہ تھیں اُس کا
وہ اس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
تباہی کی ہوا اس خاکِ رنگیں تک نہ آئی تھی
یہ وہ خطّہ تھا ، جس میں نو بہاروں کی خدائی تھی
وہ اِس خطّے میں مثلِ سبزہء بیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
اسی ویرانے میں اِک دن بہشتیں لہلہاتی تھیں
گھٹائیں گِھر کے آتی تھیں،ہوائیں مُسکراتی تھیں
کہ وہ بن کر بہارِ جنّتِ ویرانہ، رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہ ویرانہ، گُزر، جس میں نہیں ہے کاروانوں کا
جہاں ملتا نہیں نام و نشاں تک ساربانوں کا
اِسی ویرانے میں اِک دن ،مری ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں آباد تھی اِک دن ، مرے افکار کی ملکہ
مرے جذبات کی دیوی، مرے اشعار کی ملکہ
وہ ملکہ، جو برنگِ عظمتِ شاہانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
صبا، شاخوں میں نخلستاں کی، جس دم سرسراتی ہے
مجھے ہر لہر سے ریحانہ کی آواز آتی ہے
یہیں ریحانہ رہتی ہے، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
فضائیں گونجتی ہیں اب بھی اُن وحشی ترانوں سے
سُنو، آواز سی آتی ہے اُن خاکی چٹانوں سے
کہ جن میں وہ برنگِ نغمہء بیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
مرے ہمدم ، جنونِ شوق کا اظہار کرنے دے
مجھے اس دشت کی اِک اِک کلی سے پیار کرنے دے
جہاں اِک دن، وہ مثلِ غنچہء مستانہ رہتی تھی!
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
بربِّ کعبہ ، اُس کی یاد میں عُمریں گنوا دوں گا!
مَیں اس وادی کے ذرّے ذرّ ے پر سجدے بچھا دوں گا
جہاں وہ جانِ کعبہ ، عظمتِ بُت خانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِس ٹیلے پر اکثر عاشقانہ گیت گاتی تھی!
پُرانے سُورماؤں کے فسانے گُنگناتی تھی
یہیں پر، منتظر میری وہ بے تابانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے حسیں سائے زمیں پر لہلہاتے تھے
ستارے جگمگاتے تھے، شگوفے کِھلکِھلاتے تھے
فضا میں منتشر اِک نکہتِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں بستی تھی اے ہمدم ، مرے رومان کی بستی
مرے افسانوں کی دُنیا ، مرے وجدان کی بستی
یہیں ریحانہ بستی تھی، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
شمیمِ زُلف سے اُس کی ،مہک جاتی تھی کُل وادی
نگاہِ مست سے اُس کی ،بہک جاتی تھی کُل وادی
ہوا میں پر فشاں ، روحِ مَے و میخانہ رہتی تھی!
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ گیسوئے پریشاں ، یا گھٹائیں رقص کرتی تھیں
فضائیں وجد کرتی تھیں ، ہوائیں رقص کرتی تھیں
وہ اِس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
گدازِ عشق سے لبریز تھا ، قلبِ حزیں اُس کا
مگر آئینہ دارِ شرم تھا، رُوئے حسیں اُس کا
خموشی میں چھپائے نغمہء مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
اُسے پھولوں نے میری یاد میں بیتاب دیکھا ہے
ستاروں کی نظر نے ، رات بھر بے خواب دیکھا ہے
وہ شمع ِ حُسن تھی ، پر صورتِ پروانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں ہمرنگِ گُلہائے حسیں ، رہتی تھی ریحانہ
مثالِ حُورِ فردوسِ بریں ، رہتی تھی ریحانہ
یہیں رہتی تھی ریحانہ، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
پیامِ دردِ دل ، اختر دئیے جاتا ہوں وادی کو
سلامِ رُخصتِ غمگیں ، کئے جاتا ہوں وادی کو
سلام ، اے وادیء ویراں ،جہاں ریحانہ رہتی تھی

پروں میں شام ڈھلتی ہے :عباس تابش Abbas Tabish


کہاں جانا تھا مجھ کو
کس نگر کی خاک بالوں میں سجانا تھی
مجھے کن ٹہنیوں سے دھوپ چُننا تھی
کہاں خیمہ لگانا تھا
مری مٹی راہِ سیارگاں کی ہمقدم نکلی
مری پلکوں پہ تارے جھلملاتے ہیں
بدن میں آگ لگتی ہے
مگر پاؤں میں خوں آ شام رستے لڑکھڑاتے ہیں
یہ کیا شیرازہ بندی ہے
یہ میری بے پری کس کُنج سے ہو کر بہم نکلی
نظر میں دن نکلتا ہے
پروں میں شام ڈھلتی ہے
مگر میں تو لہو کی منجمد سل ہوں
بدن کی کشتِ ویراں میں
یہ کس کی اُنگلیوں نے عمر بھر مجھ کو کریدا ہے
کہاں شریان میں چلتا ہوا یہ قافلہ ٹھہرا
کہ میں اس ہاتھ کی ریکھاؤں میں رنگِ حنا ٹھہرا
کہاں جانا تھا مجھ کو
کس جگہ خیمہ لگانا تھا

آنکھ نے بات کی لب سے پہلے :صابر ظفر Sabir Zafar


آنکھ نے بات کی لب سے پہلے
اور چاہا تجھے سب سے پہلے
اب تو حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں
ورنہ کیا حسن تھا اب سے پہلے
کون بے وجہ نمو پاتا ہے
کیا مسّبب تھا سبب سے پہلے
منہ لگایا تو وہ گستاخ ہُوا
ورنہ ملتا تھا ادب سے پہلے
کون سے رنگ میں شدّت تھی ظفر
اُس کے چہرے پہ غضب سے پہلے

ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے :ن م راشد Noon Meem Rashid

’’ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے ‘‘
صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے ، 
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے !
جسم کے ساحل آشفتہ پر اک عشق کا مارا ہوا
انسان ہے آسودہ، مرے دل میں ، سر ریگ نہاں 
میں فقط اس کا قصیدہ خواں ہوں 
ریت پر لیٹے ہوئے شخص کا آواز بلند!
دور کی گندم و مے ، صندل و خس لایا ہے 
تا ک کی شاخ پر اک قافلہ زنبوروں کا!
تاک کی شاخ بھی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھی!
کیسے زنبور ہمیشہ سے تمنا کے خداؤں کے حضور
سر بسجدہ ہیں ، مگر مشعل جاں لے کے ہر اک سمت رواں !
جونہی دن نکلے گا اور شہر
جواں میوہ فروشوں کی پکاروں سے چھلک اٹھے گا، 
میں بھی ہر سو ترے مژگان کے سفیروں کی طرح دوڑوں گا!
دن نکل آیا تو شبنم کی رسالت کی صفیں تہہ ہوں گی
راستے دن کے سیہ جھوٹ سے لد جائیں گے 
بھونکنا چھوڑ کے پھر کاٹنے لگ جائیں گے غم کے کتے 
اور اس شہر کے دلشاد مسافر، جن پر
ان کے سایے سے بھی لرزہ طاری، 
پیکر خواب کے مانند سر راہ پلٹ جائیں گے 
رات یوں چاہا مجھے تو نے کہ میں فرد نہیں 
بلکہ آزادی کے دیوانوں کا جمگھٹ ہوں میں 
رات یوں چاہا تجھے میں نے کہ تو فرد نہ ہو
بلکہ آئندہ ستاروں کا ہجوم۔ ۔ ۔ 
صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے 
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے ، 

سفر میں جب تلک رہنا سفر کی آرزو کرنا :رئیس فروغ Raees Faroogh



سفر میں جب تلک رہنا سفر کی آرزو کرنا
گھروں میں بیٹھ کر بیتے سفر کی گفتگو کرنا

جنھیں روٹھے ہوئے دلدار کی بانہیں سمجھتے ہو
وہ شاخین کاٹ لانا پھر انہیں زیبِ گلو کرنا

تمہیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے ، کہ ہر شب کو
تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا

غمِ نا آگہی، جب رقصِ وحشت کا خیال آئے
کہیں اوپر سے کچھ نیلاہٹیں لاکر وضو کرنا

رفوگر، چاند نکلا ہے، نہ تارے ہیں، نہ جگنو ہیں
رفوگر اپنے ہاتھوں کے اجالے میں رفو کرنا

نئے چہروں سے ملنے کے لیے کیا شکل بہتر ہے
پرانے پیرہن پر رنگ کرنا، یا لہو کرنا


میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی :محسن نقوی Mohsin Naqvi

میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میری تخلیق میرے فکر کی پہچان بھی ہے
میرے حرفوں ، میرے لفظوں میں ہے چہرہ میرا
میرا فن اب میرا مذہب ، میرا ایمان بھی ہے
میر و غالب نہ سہی ، پھر بھی غنیمت جانو
میرے یاروں کے سِرہانے میرا دیوان بھی ہے
مجھ سے پوچھو کہ شکستِ دل و جاں سے پہلے
میرے احساس پہ گزری ہے قیامت کیا کیا
سایۂ دار و شبِ غم کی سخاوت سے الگ
میں نے سوچی قد و گیسو کی علامت کیا کیا
میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خرابوں سے پرے
میرے بکھرے ہوئے جذبے تھے سلامت کیا کیا
طنزِ اغیار سے احباب کے اخلاص تلک
میں نے ہر نعمتِ عظمیٰ کا لبادہ پہنا
دستِ قاتل کی کشش آپ گواہی دے گی
میں نے ہر زخم قبا سے بھی زیادہ پہنا
میری آنکھوں میں خراشیں تھیں دھنک کی لیکن
میری تصویر نے ملبوس تو سادہ پہنا
ضربتِ سنگِ ملامت میرے سینے پہ سجی
تمغۂ جرّات و اعزازِ حکومت کی طرح
کھُل کے برسی میری سوچوں پہ عداوت کی گھٹا
آسمانوں سے اُترتی ہوئی دولت کی طرح
قریہ قریہ ہوئی رسوا میرے فن کی چاہت
کونے کونے میں بکھرتی ہوئی شہرت کی طرح
میرے آنگن میں حوادث کی سواری اُتری
میرا دل وجہِ عذابِ در و دیوار ہوا
عشق میں عزّتِ سعادت بھلا کر اکثر
میر صاحب کی طرح میں بھی گناہ گار ہوا
اپنی اُجڑی ہوئی آنکھوں سے شعاعیں لے کر
میں نے بجھتی ہوئی سوچوں کو جوانی دی ہے
اپنی غزلوں کے سُخن تاب ستارے چُن کر
سنگریزوں کو بھی آشفتہ بیانی دی ہے
حسنِ خاکِ رہِ یاراں سے محبت کر کے
میں نے ہر موڑ کو اِک تازہ کہانی دی ہے
مجھ سے روٹھے ہیں میرے اپنے قبیلے والے
میرے سینے میں ہر اِک تیرِ ستم ٹوٹا ہے
کربِ نا قدریِ یاراں کے بھنور میں گھِر کر
بارہا دل کی طرح شوق کا دم ٹوٹا ہے
میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میں نے اس شہر کی چاہت سے شرف پایا ہے
میرے اعدا کا غضب ابرِ کرم ہے مجھ کو
میرے احباب کی نفرت میرا سرمایہ ہے
مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخِ وفا لکھے گی
میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے
وسعتِ دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی!!!!

آئینہ خانہ تصور میں :مصطفیٰ زیدی Mustafa Zaidi


میں آنکھیں بند کئے سوچتا رہا لیکن
نہ حافظے نے مدد کی نہ مرنے والوں نے
ہر ایک سالگرہ موم بتّیوں کی طرح
پگھل کے رہ گئی تاریخ کے اندھیروں میں
خیال ہے کہ اک ایسا بھی موڑ آیا تھا
جب انتظار کی ہر بے کراں اندھیری رات
ترے خیال کی آہٹ سے چونک جاتی تھی
تِرے لبوں کی عنایت سے بہت پہلے
ترے لبوں کے تصور سے آنچ آتی تھی
نہ جانے کون سے لمحے نے مجھ کو چھین لیا
نہ جانے کون سی ساعت تری رقیب بنی
اک ایسا غم تھا شبستانِ جسم و جاں پہ مُحیط
جو تیرا غم بھی نہ تھا ، غمِ جہاں بھی نہیں
مِرا دیارِ تمنّا ضرور تھا ، لیکن
دیارِ دل بھی نہیں تھا ، دیارِ جاں بھی نہیں
خوشی بھی تھی کہ یہ سرحد خوشی سے آگے ہَے
فغاں بھی تھی کہ یہ معمُورۂ فغاں بھی نہیں
مری رگوں میں لہُو بن کے رچ گئی تھی وُہ نیند
تِرے بدن کی حلاوت نے جس کی باہوں میں
زمانے بھر کی پُر اسرار خُنکیاں رکھ دیں
تری نگاہ کی شفقت نے جس کی پلکوں پر
لطیف ، نرم ، مِلنسار اُنگلیاں رکھ دیں
اور اس دھُلے ہُوئے لمحے میں ، ایک ساعت میں
تری وفا ، تری آغوش کی حلاوت میں
کِسی نے جیسے مرے دونوں ہات تھام لیے
اُفق کے بعد اُفق آئے ، رنگ رنگ کے دیس
چمکتے ، کوندتے ، سیماب کی طرح بے تاب
نہ آسمان ، نہ دھرتی کا گھُومتا چکّر
نہ ماہتاب کے ٹکڑے ، نہ ریت کے ذرّے
کوئی زمیں بھی نہیں تھی ، کوئی زماں بھی نہیں
دیارِ دل بھی نہیں تھا ، دیارِ جاں بھی نہیں
یہاں بھی ویسے ہی اِنساں تھے جنھیں میں نے
زمیں پہ چھوڑ دیا تھا ، مگر یہاں میرے
اور اُن کے بیج ، آئینہ جمال نہ تھا
سیاہ آنکھوں کے بدلے ، جواں لبوں کے عوض
ہر ایک شکل کھڑی تھی کوئی دُکان سجائے
ہر اک شکل سے آتی تھی دم بہ دم آواز
” گھڑی ، پُرانی قمیضیں ، دوائیں ، سِگرٹ ۔ چائے”

جہاں دریا اترتا ہے :اختر حسین جعفری Akhtar Hussain Jaffri


سرشکِ خوں، رُخِ مضموں پہ چلتا ہے تو اک رستہ
نکلتا ہے
ندی دریا پہ تھم جائے
لہو نقطے پہ جم جائے تو عنوانِ سفر ٹھہرے
اسی رستے پہ سرکش روشنی تاروں میں ڈھلتی ہے
اسی نقطے کی سُولی پر پیمبر بات کرتے ہیں
مجھے چلنا نہیں آتا
شبِ ساکن کی خانہ زاد تصویرو! گواہی دو
فصیلِ صبحِ ممکن پر مجھے چلنا نہیں آتا
مِرے چشموں میں شورِ آب یکجا بر شگالی ہے
ندی مقروض بادل کی
میرا دریا سوالی ہے
رگِ حرفِ زبوں میں جو چراغِ خوں سفر میں ہے
ابھی اس نقطہً آخر کے زینے تک نہیں آتا
جہاں جلّاد کا گھر ہے
جہاں دیوارِصبحِ ذات کے رخنے سے نگہِ خشمگیں
بارُود کی چَشمک ڈراتی ہے
جہاں سُولی کے منبر پر پیمبر بات کرتے ہیں
اب اِن باتوں کے سِکّے جیب کے اندر کھنکتے ہیں کہ جن پر
قصرِ شاہی کے مناظر
اسلحہ خانوں سے جاری حکم کندہ ہیں
بھرے بازار میں طفلِ تہی کیسہ پریشاں ہے کہ اس کے پاوٌں
ٹکسالوں کے رستے سے ابھی نا آشنا ہیں
اور اس کا باپ گونگا ہے
ندی رک رک کے چلتی ہے
تکلّم رہن رکھنے سے سفر آساں نہیں ہوتا
ہُوا پسپا جہاں پانی
جہاں موجوں نے زنجیرِ وفا پہنی، سپر گرداب کی رکھ دی
عَلَم رکھے ، قلم رکھے
خفا بادل نے جن پایاب دریاوٌں سے منہ موڑا
جہاں تاراج ہے کھیتی
جہاں قریہ اجڑتا ہے
طنابِ راہ کٹتی ہے کہیں خیمہ اکھڑتا ہے
وہاں سے دُور ہے ندی
وہاں سے دُور ہے بچہ کہ اس کے پاوٌں
دریاوٌں کے رستے سے ابھی نا آشنا ہیں
اور اس کا باپ گونگا ہے
اسے چلنا نہیں آتا
فصیلِ صبحِ ممکن پر اسے چلنا نہیں آتا
سحر کے پاس ہیں منسوخ شرطیں صلحنامے کی
صبا ، درسِ زیاں آموز کی تفصیل رکھتی ہے
کسی تمثیل میں تم ہو
کسی اجمال میں ، مَیں ہوں
کہیں قرطاسِ خالی کا وہ بے عنوان ساحل ہے
جہاں آشفتگانِ عدل نے ہتھیار ڈالے ہیں
بہت ذاتیں ہیں صدموں کی
کئی حصے ہیں سینے میں نفس گم کردہ لمحے کے
کئی طبقات ہیں دن کے
کہیں صبحِ مکافاتِ سخن کے منطتقے میں تم مقیّد ہو
کسی پچھلے پہر کے صلحنامے کی عدالت میں
کڑی شرطوں پر اپنے دستخط کے روبُرو مَیں ہوں
سنو ، قرطاسِ خالی کے سپر انداز ساحل سے
ہَوا کیا بات کرتی ہے
اُدھر ، اُس دوسرے ساحل سے جو ملّاح آیا ہے
زمینیں بیچتی بستی سے کیا پیغام لایا ہے
کوئی تعزیر کی دھمکی؟
کوئی وعدہ رہائی کا؟
کوئی آنسو؟
کوئی چٹّھی ؟

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اُداس لوگو :محسن نقوی Mohsin Naqvi



کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اُداس لوگو
کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو

گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو

جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو

کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو

اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو

یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو

یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرِ سناں، کوئی سر سجاؤ! اُداس لوگو

اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو


آ اور میرے وجود میں اُتر : فرحت عباس شاہ Farhat Abbas Shah


اے رات
آ اور میرے گلے لگ جا
آ میں تمھاری آنکھیں، تمہارے ہونٹ
تمہارے رخسار اور تمہاری پیشانی چوموں
تمہاری ٹھوڑی پہ بوسہ دُوں
تمھیں کاجل لگاؤں
تمھارے بال سنواروں
اور تمہاری مانگ میں ستارے بھر دُوں
اور تمہارے شانوں پہ سر رکھ کے
بچھڑے ہوئے لوگوں
اور بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کروں
اور ٹوٹ کے چاروں طرف بکھر ے ہوئے آئینوں کی کرچیاں
چن چن کے
تمہیں اپنی زخمی پوریں دکھاؤں
اے رات
آ اور میرے وجود میں اُتر
آ اور میری ہتھیلیوں پہ آہستہ آہستہ
اپنا تمام روپ پھیلا دے

ان دو آنکھوں :احمد فواد Ahmad Fawad

ان دو آنکھوں میں بہت دور کہیں
گزرے موہوم زمانوں کی خموشی پہنے
ایک محجوب خوشی رہتی ہے
صاف شفّاف فضاؤں میں
نگاہوں کی حدوں سے آگے
خواب آوارہ پرندوں کی طرح
دھیمے لہجہ میں
کسی گیت کا بازو تھامے
پھر میرے دل کی طرف آتے ہیں
ان دو آنکھوں سے کوئی جا کے کہے
آسمانوں سے زمیں پر آئیں
کوئی تارہ کوئی بادل کوئی نغمہ لے کر
کوئی دریا کوئی چشمہ کوئی جھونکا لے کر

کوئی دھُن ہو میں ترے گیت ہی گائے جاؤں :اختر حسین جعفری Akhter Hussain Jaffri


کوئی دھُن ہو میں ترے گیت ہی گائے جاؤں
درد سینے میں اٹھے شور مچائے جاؤں
خواب بن کر تُو برستا رہے شبنم شبنم
اور بس میں اسی موسم میں نہائے جاؤں
تیرے ہی رنگ اُترتے چلے جائیں مجھ میں
خود کو لکھوں تری تصویر بنائے جاؤں
جس کو ملنا نہیں پھر اس سے محبّت کیسی
سوچتا جاؤں مگر دل میں بسائے جاؤں
تُو اب اس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا ہے
زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جاؤں
یہی چہرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
ہر نئے حرف میں جاں اپنی سمائے جاؤں
جان تو چیز ہے کیا رشتۂ جاں سے آگے
کوئی آواز دیئے جائے میں آئے جاؤں
شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں
دھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں
اہل ِ دل ہوں گے تو سمجھیں گے سخن کو میرے
بزم میں آ ہی گیا ہوں تو سنائے جاؤں

اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا :یوسف حسنYusuf Hassan


اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا
یہ دل کا درد مگر زار رہگذر بھی تھا
اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں
کہ اک دیا مرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا
یہ جسم و جان تیری ہی عطا سہی لیکن
ترے جہان میں جینا مرا ہنر بھی تھا
اسی کھنڈر میں مرے خواب کی گلی بھی تھی
گلی میں پیڑ بھی تھا پیڑ پر ثمر بھی تھا
مجھے کہیں کا نہ رکھا سفید پوشی نے
میں گرد گرد رواں تھا تو معتبر بھی تھا
میں سرخرو تھا خدائی کے روبرو یوسف
کہ اس کی چاہ کا الزام میرے سر بھی تھا

منتخب اشعار :Muntakhib ash'aar

سکون_ دل وہاں پر ڈھونڈتے ہی
جہاں برپا قیامت ہو رہی ہے   
گلنار آفرین
_

جس نے اک عمر دل میں شور کیا
وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں
ناصر کاظمی
_
خوب رویا قبر میں جس دم چلے منکر نکیر
یاد آیا مجھ کو تنہا چھوڑ جانا یار کا
امیر اللہ تسلیم لکھنوی
_
لٹکے رہے چھڑی پہ مرے موتیے کے ہار
ہر شخص اپنے بیچ کے پتھر چلا گیا
رفیق وثیر
_
داستاں بن سکیں تو لے لیجے،
یاد ہیں چند واقعات مجھے.
عدم
_
تو مطمئن نہیں ہے تو مجھے کب ہے اعتراض
مٹی کو پھر سے گوندھ میری، پھر بنا مجھے
_
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم
...جون ایلیا
_
مہمان آ گیا تھا، سو کھانےکی میز پر،
جلتا ہوا چراغ بجھانا پڑا مجھے.منیر سیفی
_
عدیم اب تک وہی بچپن وہی تخریب کاری ہے،
قفس کو توڑ دیتا ہوں، پرندے چھوڑ دیتا ہوں.عدیم ہاشمی
_

سخت منہ زور ہیں تمنائیں
جیسے بچے امیر لوگوں کےناز خیالوی
_

بہت آتے ہیں پتھر ہر طرف سے
شجر کو بے ثمر کرنا پڑے گاشہزاد احمد
_

بچھڑ کر تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
اُڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
(عدیم ہاشمی )

اختتام سے پہلے :خالد علیم Khalid Aleem

وہی کہانی، مگر ایک باب ختم ہوا
اب اگلے باب کا کردار
اس فسانۂ رنگیں میں تیرے نام کا ہے
مگر یہ ڈر ہے، کہیں اختتام سے پہلے
وہ ایک نام کہ جو تیرے نام سے پہلے
گلاب رُت میں کھلا تھا
تو میری آنکھ نے ایک ایک حرف
برگ ستارہ نما سمجھ کے پڑھا تھا
طلوع شام سے پہلے
کہانی پھر وہی کردار لے کے پھیلتی جائے
تو اس کے بعد مرا اضطراب ختم نہ ہو
کہیں یہ عمر رواں کی کتاب ختم نہ ہو