’’ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے ‘‘
صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے ،
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے !
جسم کے ساحل آشفتہ پر اک عشق کا مارا ہوا
انسان ہے آسودہ، مرے دل میں ، سر ریگ نہاں
میں فقط اس کا قصیدہ خواں ہوں
ریت پر لیٹے ہوئے شخص کا آواز بلند!
دور کی گندم و مے ، صندل و خس لایا ہے
تا ک کی شاخ پر اک قافلہ زنبوروں کا!
تاک کی شاخ بھی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھی!
کیسے زنبور ہمیشہ سے تمنا کے خداؤں کے حضور
سر بسجدہ ہیں ، مگر مشعل جاں لے کے ہر اک سمت رواں !
جونہی دن نکلے گا اور شہر
جواں میوہ فروشوں کی پکاروں سے چھلک اٹھے گا،
میں بھی ہر سو ترے مژگان کے سفیروں کی طرح دوڑوں گا!
دن نکل آیا تو شبنم کی رسالت کی صفیں تہہ ہوں گی
راستے دن کے سیہ جھوٹ سے لد جائیں گے
بھونکنا چھوڑ کے پھر کاٹنے لگ جائیں گے غم کے کتے
اور اس شہر کے دلشاد مسافر، جن پر
ان کے سایے سے بھی لرزہ طاری،
پیکر خواب کے مانند سر راہ پلٹ جائیں گے
رات یوں چاہا مجھے تو نے کہ میں فرد نہیں
بلکہ آزادی کے دیوانوں کا جمگھٹ ہوں میں
رات یوں چاہا تجھے میں نے کہ تو فرد نہ ہو
بلکہ آئندہ ستاروں کا ہجوم۔ ۔ ۔
صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے ،
صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے ،
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے !
جسم کے ساحل آشفتہ پر اک عشق کا مارا ہوا
انسان ہے آسودہ، مرے دل میں ، سر ریگ نہاں
میں فقط اس کا قصیدہ خواں ہوں
ریت پر لیٹے ہوئے شخص کا آواز بلند!
دور کی گندم و مے ، صندل و خس لایا ہے
تا ک کی شاخ پر اک قافلہ زنبوروں کا!
تاک کی شاخ بھی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھی!
کیسے زنبور ہمیشہ سے تمنا کے خداؤں کے حضور
سر بسجدہ ہیں ، مگر مشعل جاں لے کے ہر اک سمت رواں !
جونہی دن نکلے گا اور شہر
جواں میوہ فروشوں کی پکاروں سے چھلک اٹھے گا،
میں بھی ہر سو ترے مژگان کے سفیروں کی طرح دوڑوں گا!
دن نکل آیا تو شبنم کی رسالت کی صفیں تہہ ہوں گی
راستے دن کے سیہ جھوٹ سے لد جائیں گے
بھونکنا چھوڑ کے پھر کاٹنے لگ جائیں گے غم کے کتے
اور اس شہر کے دلشاد مسافر، جن پر
ان کے سایے سے بھی لرزہ طاری،
پیکر خواب کے مانند سر راہ پلٹ جائیں گے
رات یوں چاہا مجھے تو نے کہ میں فرد نہیں
بلکہ آزادی کے دیوانوں کا جمگھٹ ہوں میں
رات یوں چاہا تجھے میں نے کہ تو فرد نہ ہو
بلکہ آئندہ ستاروں کا ہجوم۔ ۔ ۔
صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے ،
No comments:
Post a Comment