Pages

بادباں کب کھولتا ہوں پار کب جاتا ہوں میں :عباس تابش Abbas Tabish


بادباں کب کھولتا ہوں پار کب جاتا ہوں میں
روز رستے کی طرح دریا سے لوٹ آتا ہوں میں
صبح دم میں کھولتا ہوں رسّی اپنے پاؤں کی
دن ڈھلے خود کو کہیں سے ہانک کر لاتا ہوں میں
اپنی جانب سے بھی دیتا ہوں کچوکے جسم کو
اس کی جانب سے بھی اپنے زخم سہلاتا ہوں میں
ایک بچّے کی طرح خود کو بٹھا کر سامنے
خوب خود کو کوستا ہوں خوب سمجھاتا ہوں میں
خشک پتّوں کی طرح ہے قوّتِ گویائی بھی
بات کوئی بھی نہیں اور بولتا جاتا ہوں میں
یہ وہی تنہائی ہے جس سے بہل جاتا تھا دِل
یہ وہی تنہائی ہے اب جس سے گھبراتا ہوں میں
عشق میں مانع ہے غالب کی طرفداری مجھے
رعب جب چلتا نہیں تو پاؤں پڑ جاتا ہوں میں
میرے ہاتھ آتے ہیں تابش دوسرے موسم کے پھول
ایک موسم میں تو ٹہنی تک پہنچ پاتا ہوں میں

No comments:

Post a Comment