Pages

آوارہ تحیر :خالد علیم Khalid Aleem


جب سر شام کوئی پیرہن راز و نیاز
تیرے گل رو و خوش انداز لبوں نے پہنا
تیری بے مہر نگاہوں سے گزرتا ہوا
جب حلقۂ آواز لبوں نے پہنا
میری بے کیف سماعت میں اترتے ہوئے لفظوں نے مجھے
ہجر آئندہ کے پیرائے میں ڈھل کر
یہ المناک خبر دی کہ نہیں
آج ہم صرف بچھڑنے کے لیے ملتے ہیں
وادی گل میں سر جاں وہ سلگتی ہوئی شام
آ گئی لے کے شب ہجر کا پیغام بھی ساتھ
دل کے اس معبد ویراں سے کئی بار یہ آواز آئی
ایک ہی بار رگیں کھینچ نہیں لیتی کیوں
اے شب ہجر بتا تیرا تقاضا کیا ہے؟
اور پھر کتنی ہی نمناک شبوں اور سلگتی ہوئی صبحوں کا تسلسل
مرے جاں سوز مہ و سال کا حاصل ٹھہرا
پھر سر راہ وہی شام مری آنکھ کی دہلیز پہ آ پہنچی
تو بے مہر نگاہوں نے کہا
اجنبی کون ہو تم؟
اپنے آوارہ تحیر کا تماشا بنے کیا دیکھتے ہو؟

No comments:

Post a Comment