Pages

ڈگڈی والے :علی اکبر ناطق Ali akbar natiq

ڈگڈی والے تری آنکھ میں کالے کنکر
اِک اذیّت میں مسلسل تجھے رکھتی ہے چُبھن
ہو گیا جس کے سبب تیرا جہاں گردوغبار
کھو گیا درد کی راہوں میں کہیں تیرا قرار
دائرہ وار ترے چار طرف بِین تری
رقص کرتی ہے کسی شوخ پری کی صورت
جس کی رفتار میں غربت کی نحوست شامل
ایسی منحوس کہ کُوفے کی ہو قطام کوئی
ڈگڈگی تیری، ترا سانپ، جمورا تیرا
ایک اک کر کے تری حُکمِ سرا سے باہر
تُو زمیں بوس ہوا ناک نے مٹی چاٹی
تیرا بندر تری گردن پہ اکڑ کر بیٹھا
جس کے ناخن نے بگاڑے تری چہرے کے نقوش
جسم بے جان ہوا دل پہ خراشیں آئیں
ہو گئی صورتِ حالات مخالف تیرے
ڈگڈگی والے تو اب سوچ رہا ہے شائد
اتنا آسان نہیں روز تماشا کرنا

No comments:

Post a Comment