Pages

بولنے دو : احمد ندیم قاسمی Ahmad nadeem qasmi

بولنے سے مجھے کیوں روکتے ہو؟
بولنے دو، کہ میرا بولنا دراصل گواہی ہے مرے ہونے کی
تم نہیں بولنے دو گے تو میں سناٹے کی بولی ہی میں بول اٹھوں گا
میں تو بولوں گا
نہ بولوں گا تو مر جاؤں گا
بولنا ہی تو شرف ہے میرا
کبھی اس نکتے پہ بھی غور کیا ہے تم نے
کہ فرشتے بھی نہیں بولتے
میں بولتا ہوں
حق سے گفتار کی نعمت فقط انساں کو ملی
صرف وہ بولتا ہے
صرف میں بولتا ہوں
بولنے مجھ کو نہ دو گے تو مرے جسم کا ایک ایک مسام بول اٹھے گا
کہ جب بولنا منصب ہی فقط میرا ہے
میں نہ بولوں گا تو کوئی بھی نہیں بولے گا

ایک نظم : احمد ندیم قاسمی Ahmad nadeem qasmi

ریستوراں کے فرش پہ لرزاں ساۓ رقاصاؤں کے
ذھن میں جیسے گڈ مڈ ہو کر ناچیں راز خداؤں کے
چھنن چھنن چھن ! اے رقاصہ ! فن پہ یہ آوازے کیوں؟
جس کی لؤ سے پھول لجائیں، اس چہرے پہ غازے کیوں
یوں تک جیسے چاند کی کرنیں ، یوں سن جیسے ربّ قدیر
وقت کے اس لمحے کا تاثرّ عالم گیر ہے عالم گیر
(2)
راوی کی لہروں پہ رواں ہیں قاشیں چاند ستاروں کی
کس منزل کو لپکی یہ نورانی فوج سواروں کی
چپ شپ !۔ جھکتے تنتے مانجھی! تجھ کو سبک ڈانڈوں کی قسم
دھیرے دھیرے ہو لے ہولے، کاٹ یہ ابرو کا سا خم
یوں مڑ جیسے پھول کی پتی، یوں چل جیسے سر گوشی
وقت کے اس لمحے کا تقاضا مدہوشی ہے مد ہوشی
(3)
کھیتوں کی ہر یاول پر یہ دھبے ہیں دہقانوں کے
یا گیتی نے اگلے بو سیدہ تابوت انسانوں کے
سر سر ! دھپ دھپ! اے محنت کش!چھوڑ درانتی توڑ کدال
چاک ہوئ دھرتی کی چھاتی مجھ کو اس محشر سے نکال
چار طرف سے گھیر چکے ہیں جلتی سانسوں کے پیچاک
وقت کے اس لمحے کی حقیقت، آتش ناک ہے آتش ناک
(4)
یہ کس راجہ کا ایواں ہے ملبے کے انباروں میں
جیسے بلوائ کی بیٹھک، لٹے لٹے بازاروں میں
الٹی سانسیں اٹکی آہیں ، اے راہی یہ راز ہیں کیا
پچکے پیٹ دریدہ رانیں، زیست کے یہ انداز ہیں کیا
راجہ اٹھا ڈال کے اپنی بقچی میں فردا کا نظام
وقت کے اس لمحے کا ارادہ خون آشام ہے خون آشام!
(5)
معصوم انساں کے لاشے پہ فتح کے پرچم لہراۓ
استبداد کی بیخ کنی میں کتنے انساں کام آۓ
ہاریں استبدادی قومیں، لیکن کس کی جیت ہوئ
یورپ کی بے رحم سیاست، پورب کی کب میت ہوئ
تمغوں کی تقسیم ہوئ ہے یورپ کے بلوانوں میں
“مال غنیمت” سجتا ہے یورپ کے تمدن خانوں میں
(6)
نو میدی کی دھند میں غلطاں جگنو احساسات کے ہیں
اوّس کے پرّاں قطرے ہیں یا تارے پچھلی رات کے ہیں
جگنو اڑتے شعلے بن کر دھرتی سے ٹکراتے ہیں
جھلمل جھلمل، ڈگمگ ڈگمگ، ہچکولے سے آتے ہیں
موت سے بھڑ جانے کے ارادے اور جینے کی تیاری
وقت کے اس لمحے کا بلاوا بیداری ہے بیداری

ایک نظریۓ کا نوحہ : احمد ندیم قاسمی Ahmad nadeem Qasmi

وہ جو عشق پیشہ تھے
دل فروش تھے
مر گئے!
وہ ہوا کے ساتھ چلے تھے
اور ہوا کے ساتھ بکھر گئے
وہ عجیب لوگ تھے
برگِ سبز کو برگِ زرد کا روپ دھارتے دیکھ کر
رخِ زرد اشکوں سے ڈھانپ کر
بھرے گلشنوں سے
مثالِ سایۂ ابر
پل میں گزر گئے
وہ قلندرانہ وقار تن پہ لپیٹ کر
گھنے جنگلوں میں گھری ہوئی کھلی وادیوں کی بسیط دھند میں
رفتہ رفتہ اتر گئے!

ایک درخواست : احمد ندیم قاسمی Ahmad nadeem qasmi


زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا، حدِ نظر سے اگے دیکھنا بھی جرم ہے
سوچنا،اپنے یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں الٹ کر جھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے
کیسے بھی کہنا جرم ہے
سانس لینے کی آزادی میسّر ہے
مگر
زندہ رہنے کیلئے کچھ اور بھی درکار ہے
اور اس “کچھ اور بھی” کا تذکرہ بھی جرم ہے
زندگی کے نام پر بس ایک عنایت چاہیئے
مجھے ان جرائم کی اجازت چاہیئے
مجھے ان سارے جرائم کی اجازت چاہیئے

خوبصورت آشنا۔ ۔ ۔ : احمد فواد Ahmad Fawad

خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام
زرد کلیاں سرخ شعلے سرد رات
اجلی سندر ساعتوں کی جاگتی پیشانیاں
قہقہوں کے ہاتھ پکڑے دور جاتی گھنٹیاں
خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام
مردہ خوابوں کے کفن بچھڑے ہوئے نغموں کے گھر
تازہ اشکوں کے علاقے بوڑھی آہوں کے دیار
خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام
دور تنہا وادیوں میں گیت گاتی ندّیاں
خواب گوں راہوں میں گھر کا راستہ بھولی ہوئی پگڈنڈیاں
خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام
خاک کے آنگن میں ہنستے کھیلتے تازہ گلاب
دھوپ کی شعلہ بیانی چاند کا شیریں کلام
خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام
بے حیا کوّوں کی باتیں نیک خو بارش کے گیت
رات کے قدموں کی آہٹ سُن کے روتی زرد شام
خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام
جنگجو شہروں کی گلیاں چیختی چلّاتی دھول
چاندنی میں گم مہکتے چاہتوں کے سرخ پھول
خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام
سبز پتّوں کو پکڑ کر چومتی عیاش دھوپ
بے سبب گلیوں میں دن بھر جھومتی اوباش دھوپ
خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام
آسماں کی جھیل میں بہتے ہوئے تاروں کے گیت
تتلیوں کے رنگ پہنے اڑتے گلزاروں کے گیت
خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام
گہرے نیلے پانیوں میں رقص کرتی کشتیاں
شام کے آنگن میں کھلتی نیم پاگل کھڑکیاں
خوبصورت آشنا آنکھوں کے نام

چاندنی کی گفتگو : احمد فواد Ahmad Fawad

بہہ رہی ہے قریہ قریہ کوبکو
چاندنی کی نرم شیریں گفتگو
جس کو بارش کی کتابیں یاد تھیں
پیاس کے صحرا میں ہے وہ آبجو
تو نہیں ہے گر تو دل کو رات دن
مضطرب رکھتی ہے کس کی جستجو
کس کو آنکھیں ڈھونڈتی ہیں ہر طرف
پل رہی ہے دل میں کس کی آرزو
تجھ سے ملنے کا اگر امکاں نہیں
کیا کروں گا میں جہانِ رنگ و بو
میں گرا دوں گا یہ دیواریں تمام
بات ہو گی تجھ سے اک دن روبرو
کس کی خاطر ہے یہ ہنگامہ بپا
کون ہے وہ کس کے ہیں یہ کاخ و کو
اب جدائی کی شکایت کیا کروں
اب تو ہر جانب نظر آتا ہے تو
آؤ میرے دل کے سایہ میں رہو
دیکھ باہر چل رہی ہے تیز لُو
کھل کے ہو جاتا ہے وہ ہنستا گلاب
خوں سے کر لیتا ہے جو غنچہ وضو
تیرا اک خاکہ بنانے کے لئے
پی رہا ہے کب سے دل اپنا لہو
یوں تو سب پھولوں میں تیرا عکس ہے
کوئی بھی تجھ سا نہیں ہے ہو بہو

تازہ سینہ میں... : احمد فواد Ahmad Fawad

تازہ سینہ میں محبت کا فسوں جاگا ہے
خواب زاروں سے ستاروں کے سفینے اترے
گھنٹیاں ننگے قدم، خاک بسر، جانے کہاں جاتی ہیں
اس نئے دکھ کے لئے کوئی نئی دنیا ہو
ہوں نئے پیڑ نیا چاند نیا سورج ہو
ہوں نئے حرف نئے لفظ نئی نظمیں ہوں
چاندنی رات کا ملبوس نہ یوں میلا ہو
دھوپ کے لہجہ میں نرمی ہو شرافت ہو
محبت کی سی شیرینی ہو
دو نئے ہاتھ نئے ہونٹ نئی آنکھیں ہوں
ہو نیا ذہن نئی روح نئی صورت ہو
اک نیا دل ہو
جو پاگل ہو
محبت کے لئے خود کو جلا سکتا ہو
جس میں صحراؤں کی وسعت ہو
سمندر کی سی گہرائی ہو
جس میں خاموشی ہو
ہیبت ہو پریشانی ہو
خاک میں رفعت افلاک ملا سکتا ہو
نیند سے مردہ پہاڑوں کو اٹھا سکتا ہو

شہر بے مہر سے پیمانِ وفا کیا باندھیں : افتخار عارف Iftikhar Arif


شہر بے مہر سے پیمانِ وفا کیا باندھیں
خاک اُڑتی ہے گلِ تر کی ہوا کیا باندھیں
جانتے ہیں سفر شوق کی حد کیا ہوگی
زور باندھیں بھی تو ہم آبلہ پا کیا باندھیں
کوئی بولے گا تو آواز سُنائی دے گی
ہُو کا عالم ہو تو مضمون صدا کیا باندھیں
ساری بستی ہوئی اک موجۂ سفاک کی نذر
اب کوئی بند سر سیل بلا کیا باندھیں
آخرش ہر نفس گرم کا انجام ہے ایک
سو گھڑی بھر کو طلسم من و ماکیا باندھیں

بن باس : افتخار عارف Iftikhar Arif

رات دن خواب بنتی ہوئی زندگی
دل میں نقد اضافی کی لو
آنکھ بارِ امانت سے چُور
موج خوں بے نیاز مآل
دشت بےرنگ سے درد کے پھول چُنتی ہوئی زندگی
خوف و اماندگی سے حجل
آرزوؤں کے آشوب سے مضمحل
منہ کے بل خاک پر آ پڑی
ہر طرف اک بھیانک سکوت
کوئی نوحہ نہ آنسونہ پھول
حاصل جسم و جاں بے نشاں رہ گزاروں کی دھول
اجنبی شہر میں
خاک برسر ہوئی زندگی
کیسی بے گھر ہوئی زندگی

بارہواں کھلا ڑی : افتخار عارف Iftikhar Arif

خو شگوارموسم میں
ان گنت تماشائی
اپنی اپنی ٹیموں کو
داد دینے آتے ہیں
اپنے اپنے پیاروں کا
حو صلہ بڑ ھا تے ہیں
میں الگ تھلگ سب سے
با رہویں کھلا ڑی کو
ہوٹ کر تا رہتا ہوں
بارہواں کھلاڑی بھی
کیا عجب کھلا ڑی ہے
کھیل ہو تا رہتا ہے
شور مچتا رہتا ہے
داد پڑ تی رہتی ہے
اور وہ الگ سب سے
انتظار کرتاہے
ایک ایسی ساعت کا
ایک ایسے لمحے کا
جس میں سانحہ ہوجائے
پھر وہ کھیلنے نکلے
تالیوں کے جھر مٹ میں
ایک جملہ خوش کن
ایک نعرہ تحسین
اس کے نام پر ہوجائے
سب کھلا ڑیوں کے ساتھ
وہ بھی معتبر ہوجائے
پر یہ کم ہی ہوتاہے
پھر بھی لوگ کہتے ہیں
کھیل سے کھلاڑی کا
عمر بھر کا رشتہ ہے
عمر بھر کایہ رشتہ
چھو ٹ بھی تو سکتا ہے
آخری وسل کے ساتھ
ڈوب جانے والا دل
ٹو ٹ بھی توسکتاہے

اس کی پائل اگر چھنک جائے : عبد الحمید عدم Abdul Hameed Adam


اس کی پائل اگر چھنک جائے
گردشِ آسماں ٹھٹھک جائے
اس کے ہنسنے کی کیفیت ، توبہ!
جیسے بجلی چمک چمک جائے
اس کے سینے کا زیرو بم ، توبہ!
دیوتاؤں کا دل دھڑک جائے
لے اگر جھوم کر وہ انگڑائی
زندگی دار پر اٹک جائے
ایسے بھر پور ہے بدن اس کا
جیسے ساون کا آم پک جائے
ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے

اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے : عبد الحمید عدم Abdul Hameed Adam


اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے
دل کی آہٹ سے تری آواز آتی ہے مجھے
جھاڑ کر گردِ غمِ ہستی کو اڑ جاؤں گا میں
بے خبر! ایسی بھی اک پرواز آتی ہے مجھے
یا سماعت کا بھرم ہے یا کسی نغمے کی گونج
ایک پہچانی ہوئی آواز آتی ہے مجھے
اس کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدم
ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے مجھے

آگہی میں اک خلا موجود ہے : عبد الحمید عدم Abdul hameed Adam


آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے
بانکپن میں اور کوئی شے نہیں
سادگی کی انتہا موجود ہے
ہر محبت کی بنا ہے چاشنی
ہر لگن میں مدعا موجود ہے
ہر جگہ ہر شہر ہر اقلیم میں
دھُوم ہے اس کی ، جو نا موجود ہے
جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدم
وہ ستمگر جا بجا موجود ہے

اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا : ناصر کاظمی Nasir kazmi


اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا
جو مل گیا ہے میں اُس سے زیادہ کیا کرتا
بھلا ہوا کہ ترے راستے کی خاک ہوا
میں یہ طویل سفر پا پیادہ کیا کرتا
مسافروں کی تو خیر اپنی اپنی منزل تھی
تری گلی کو نہ جاتا تو جادہ کیا کرتا
تجھے تو گھیرے ہی رہتے ہیں رنگ رنگ کے لوگ
ترے حضور مرا حرفِ سادہ کیا کرتا
بس ایک چہرہ کتابی نظر میں ہے ناصر
کسی کتاب سے میں استفادہ کیا کرتا

بُجھ گئے روزن گھروں کے شہر صحرا ہو گیا : مبارک حیدر Mubarik Haider


بُجھ گئے روزن گھروں کے شہر صحرا ہو گیا
چاند پھر سرما کی اس بستی میں تنہا ہو گیا
چُور ہو کر ہر صدا گھاٹی کی تہہ میں سو گئی
خواب کوہِ بے نمو کا اور گہرا ہو گیا
اپنے درختوں کے نگر کب پھل کھلائے گی ہوا
پتے گنتے ہاتھ ہارے، شوق اندھا ہو گیا
اک ہلورا بھر وہ شاخ سبز میرے ساتھ تھی
پھر میری آنکھوں کے آگے باغ پیلا ہو گیا
لے یہاں تازہ شکستوں کی لکیریں ثبت کر
تُو نے جو اِس ہاتھ پر لکھا ہوا تھا ہو گیا

تو پرندے مار دے سرو و صنوبر مار دے : عباس تابش


تو پرندے مار دے سرو و صنوبر مار دے
تیری مرضی جس کو دہشت گرد کہہ کر مار دے
تیرا اس کے ماننے والوں سے پالا پڑ گیا
جو پرندے بھیج کر لشکر کے لشکر مار دے
تم بھی موسیٰ کے تعاقب میں چلے تو آئے ہو
دیکھنا تم کو نہ یہ نیلا سمندر مار دے
تو نے جس کے ڈھونڈنے کو بھیج دی اتنی سپاہ
یہ نہ ہو وہ تجھ کو تیرے گھر کے اندر مار دے
اس کو کیا حق ہے یہاں بارود کی بارش کرے
اس کو کیا حق ہے مرے رنگلے کبوتر مار دے
فیصلے تاریخ کے ، میدان میں ہوتے نہیں
مارنے والو! کوئی تو کو نہ مر کر مار دے
روشنی کے واسطے پندار کا سودا نہ کر
سامنے سورج بھی ہے تو اس کو ٹھوکر مار دے
گونج تو بھی اس کے لہجے میں پہاڑوں کی طرح
تابش ا س کی بات تو بھی اس کے منہ پر مار دے

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے : عباس تابش Abbas Tabish


پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
ایک محبّت اور وہ بھی ناکام محبّت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
دل پر پانی پینے آتی ہیں اُمیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے
مجھ نادان سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے
یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے
پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھُپایا جا سکتا ہے

اس پہ ظاہر مرا احوال نہیں ہو سکتا : صابر ظفر Sabir Zafar


اس پہ ظاہر مرا احوال نہیں ہو سکتا
وہ کنارا کبھی پاتال نہیں ہو سکتا
فکر کرنے سے ہی ملتی ہے سخن کی دولت
جو نہیں سوچتا خوشحال نہیں ہو سکتا
لکھنے والا جو اسے اپنے لہو سے لکھے
کوئی مضمون بھی پامال نہیں ہو سکتا
آب و ماہی کا تعلق ہے فقط آزادی
ان کا ہمدرد کوئی جال نہیں ہو سکتا
شہر اپنا ہے وہی پہلی محبت ہے جہاں
کہ کراچی تو ظفر وال نہیں ہو سکتا

باغ جناح کی شب ابتدا : خالد علیم Khalid Aleem

چاند نکلا ہے
مگر چاند تو پہلے بھی نکلتا تھا
یہ چاند، آج کا چاند
روش سبزہ و گل پر ہی اتر آیا ہے
مرمریں گھاس پہ جیسے کوئی آہستہ خرام
دل کے افسردہ دروبام تک آ پہنچا ہو
میری آنکھوں کے دریچوں میں اترتا ہوا چاند
اب تولگتا ہے رگ جاں میں اتر آیا ہے
اور دل کے کسی اندوہ گزشتہ کی فسردہ لہریں
سامنے باغ کے اُس قطعۂ تاریک کے ٹھہرے ہوئے پانی میں
دھڑک اٹھی ہیں
قمقمے باغ کے روشن ہیں ستاروں کی طرح
اور مرے پاس کہیں
ایک بے نام صدا گونج اٹھی ہے
مری خاموش سماعت میں ترے پاؤں کی چاپ
چاندنی رات کے خاموش تحیر کی طرح پھیل رہی ہے
کوئی آوارہ و بے راہ تصور مرے سینے میں چمک اٹھا ہے
طاق جاں میں کوئی شعلہ سا دہک اٹھا ہے

بے ساز و ساماں :جون ایلیا John Ailiya


حقیقت مجھ کو راس آتی نہیں ہے
غزالہ! تم فقط اک خواب ہو کیا
تمہاری جاودانہ جستجو ہے
مری جاں! تم جو ہو نایاب ہو کیا
سراپا سحر، یکسر بے نیازی
تم اِک آہنگِ بے مضراب ہو کیا
O
مری زیبُ النسائے شعر ہو تم
تمہارا سحر میری شاعری ہے
تمہاری آرزوئے جاودانہ
جمالِ جاودانِ زندگی ہے
تمہیں ہے پر دیکھا نہیں ہے
تمہارے خواب کو سجدے کیے ہیں
تمہارے ہجرِ بے وعدہ میں میں نے
تمہاری یاد کے بوسے لیے ہیں
بدن ہو تم خیالِ جاوداں کا
بدن کو پیرہن بھی چاہیے
شمیمِ جاں نوازِ یاسمن کو
نہالِ یاسمن بھی چاہیے ہے
نظر ہے خواب کی بے ساز و ساماں
نظر کو بھی تو کچھ بخشو مری جاں

انگارے :جون ایلیا John Ailiya

تم
تمہارا نام
لیکن میں نے یہ نام پہلی بار تم سے ہی سُنا ہے
کون ہو تم
کون تھیں تم
اب رہا میں یعنی میں
میں تو کبھی تھا ہی نہیں
تھا ہی نہیں میں
اور سارے کاغذوں پر صرف انگارے لکھے ہیں
صرف انگارے

اس رائیگانی میں :جون ایلیا John Ailiya

سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے
جو ہم نے گلے مل کر بہائے تھے
نہ جانے وقت ان آنکھوں سے پھر کس طور پیش آیا
مگر میری فریب وقت کی بہکی ہوئی آنکھوں نے
اس کے بعد بھی
آنسو بہائے ہیں
مرے دل نے بہت سے دکھ رچائے ہیں
مگر یوں ہے کہ ماہ و سال کی اس رائیگانی میں
مری آنکھیں
گلے ملتے ہوئے رشتوں کی فرقت کے وہ آنسو

اجنبی شام :جون ایلیا John Ailiya


دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر
سب کا رُخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف بنوں کی طرف
اپنے گلوں کو لے کر چرواہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دلِ ناکام! میں کہاں جاؤں؟
دلِ ناکام! میں کہاں جاؤں؟

اک شہر امکاں جاگتا ہے :خالد علیم Khalid Aleem

ابھی تہذیب زندہ ہے
شمیسی کے پرانے اور کچھ کچے مکانوں میں
پرانی وضع کے کچھ لوگ باقی ہیں
ابھی اس شہر کے افسردہ دامن میں پرانا شہر بستا ہے
جہاں اس کے شکستہ بام و در میں زندگی کا حسن باقی ہے
گلی کے موڑ پر اک بوڑھا اعرابی کھڑا ہے
جس کی آنکھوں میں ابھی تک
نجد کے صحرا میں چلتے قافلہ در قافلہ
ناقہ سواروں کے سفر کی گرد رخشندہ ہے
چہرے کی نمایاں سلوٹوں میں تہ بہ تہ
محمل نشینوں کی نظر کا لمس زندہ ہے
ابھی اس بوڑھے اعرابی کے ان رعشہ زدہ ہاتھوں میں
خیموں کی طنابوں کی حرارت جاگتی ہے-- اور--
ابھی اس شہر سے کچھ دور صحرا کے افق آثار دامن میں
کئی خیمہ نشیں شاموں کا سوز و ساز باقی ہے
ابھی صحرا کے وسعت آشنا ناقہ سواروں کا سفر جاری ہے
اونٹوں کی نکیلوں سے حدی کی لے
ہواؤں میں مہکتی ہے
جرس کے شور میں، ریگ رواں کے زیر و بم میں
آج بھی کتنے شتر بانوں کے نغمے گونجتے ہیں
اور فضاؤں میں بنی عامر کی آوازوں کا جمگھٹ
اب بھی جسم و جاں میں اک ہلچل مچاتا ہے
ابھی تہذیب زندہ ہے
ابھی تہذیب مر سکتی نہیں اک شہر امکاں جاگتا ہے