Pages

مکاں اور مکیں : امجد اسلام امجد Amjad Islam Amjad


اتنی بڑی اِن دنیاؤں میں
اپنے نام کی تختی والی، ایک عمارت
کتنے دکھوں کی اینٹیں چن کر گھر بنتی ہے
پتھر پتھر جوڑ کے دیکھو
میں نے بھی اک گھر ہے بنایا
رنگوں، پھولوں، تصویروں سے اُس کو سجایا
دروازے کی لوح پہ اپنا نام لکھایا
لیکن اس کے ہر کمرے میں تم رہتے ہو

کرو، جو بات کرنی ہے : امجد اسلام امجد Amjad Islam Amjad


کرو، جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پہ بیٹھے، کہ دنیا
بس تمہیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کو ایک لمحے کے لئے رُکنا نہیں ملتا
بٹھاؤ لاکھ تُم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت
بِنا دیکھے، بِنا ٹھہرے
جِسے تُم وقت کہتے ہو
دھندلکا سا کوئی جیسے زمیں سے آسماں تک ہے
یہ کوئی خواب ہے جیسے
نہیں معلوم کچھ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے
کرو، جو بات کرنی ہے

آٹوگراف : مجید امجد Majeed Amjad


کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
کتابچے لئے ہوئے
کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں
ڈھلکتے آنچلوں سے بےخبر حسین لڑکیاں
مہیب پھاٹکوں کے ڈولتےکو اڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے
پُر ہراس قافلے
گرے، بڑھے، مُڑے بھنور ہجوم کے
کھڑی ہیں یہ بھی راستے پہ اک طرف
بیاضِ آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بہ دم
کمان ابرواں کا خم
کوئی جب ایک نازِ بےنیاز سے
کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا
حروفِ کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی اگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز
نبض رُک گئی
وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا
وہ صفحہِ بیاض پر بصد غرورکلکِ گوہروں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
میں اجنبی میں بے نشاں
میں پا بہ گل !
نہ رفعتِ مقام ہے نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل ۔۔۔۔۔ یہ لوحِ دل !
نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ س پہ کوئی نام ہے

۔۔ شبِ رفتہ : مجید امجد Majeed Amjad


ایک کوہستانی سفر کے دوران
تنگ پگڈنڈی ۔۔۔۔۔ سرِ کُہسار بل کھاتی ہوئی
نیچے، دونوں سمت، گہرے غار، منہ کھولے ہوئے
آگے، ڈھلوانوں کے پار اک موڑ اور اس جگہ
اِک فرشتے کی طرح نورانی پر تولے ہوئی
جھک پڑا ہے آکے رستے پر کوئی نخلِ بُلند
تھام کر جس کو گزر جاتی ہے آسانی کے ساتھ
موڑ پر سے ڈگمگاتے رہروؤں کے قافلے
ایک بوسیدہ خمیدہ پیڑ کا کمزور ہاتھ
سینکڑوں گرتے ہوؤں کی دستگیری کا امیں !
آہ ! اُن گردن فرازانِ جہاں کی زندگی
اِک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنہیں حاصل نہیں
۔۔۔ شبِ رفتہ

تیرے آفاق بھی ہیں حیرت میں : یوسف حسن Yusuf Hassan


تیرے آفاق بھی ہیں حیرت میں
رمز کیا ہے مری حقیقت میں
تو کہاں سے پکارتا ہے مجھے
میں تجھے ڈھونڈتا ہوں خلقت میں
ہم نہ اپنے دیے بجھائیں گے
کچھ بھی ہو رات کی مشیت میں
کوئی پہرا نہیں فصیلوں پر
شہر اندر سے ہے حراست میں
ایک دنیا ہے تیرے ساتھ مگر
کس کا دل ہے تری رفاقت میں
منہ چھپائے پھریں گے سورج سے
جو ستارے ہیں شب کی خلعت میں

تری آواز کیا آنے لگی ہے : یوسف حسن Yusuf Hassan


تری آواز، کیا آنے، لگی ہے
گلی میں دھوپ لہرانے لگی ہے
تری باہوں میں مرنے کی تمنا
مجھے جینے پہ اکسانے لگی ہے
زوال عمر میں تیری محبت
مجھے کچھ اور مہکانے لگی ہے
ترے قرب رواں کی چاہ مجھ کو
سر آفاق پھیلانے لگی ہے
میں اپنی راکھ سے نکلا تو یوسف
ستاروں تک خبر جانے لگی ہے

پہلے میں تیری نظر میں آیا : یوسف حسن Yusuf Hassan


پہلے میں تیری نظر میں آیا
پھر کہیں اپنی خبر میں آیا
میں ترے ایک ہی پل میں ٹھہرا
تو مرے شام و سحر میں آیا
ایک میں ہی تری دھن میں نکلا
ایک تو ہی مرے گھر میں آیا
تو مرا حاصل ہستی ٹھہرا
میں ترے رخت، سفر میں آیا
وصل کا خواب اجالا بن کر
شام کی راہگذر میں آیا
ہم جو اک ساتھ چلے تو یوسف
آسماں گرد سفر میں آیا

ایک جنگجو قبیلے کے شاعر کا گیت : مقبول عامر Maqbool Aamir

یہ حرب کرب کی فضا
یہ کشت و خوں کا سلسلہ
ہر ایک آنکھ میں چھپی
ہوئی ہے ایک شعلگی
ٹنگے ہوئے ہیں چار سو
کمان، تیغ اور تبر
لگا ہے ہر مکان پر
لہو میں تر بتر علم
مگر مری متاع جاں
بس اک چراغ، اک قلم
مرے خدا کو ہے خبر
مری رگوں میں بھی رواں
یہی لہو، یہی اثر
جوان ہوں، دلیر ہوں
پر اس کے باوجود میں
سفیر امن و خیر ہوں
مگر یہ میرے اردگرد
شر کی قدر و منزلت!
مرے خدا میں کیا کروں!
مرے خدا میں کیا کروں!

اپنے ہمزاد سے : مقبول عامر Maqbool aamir


میں حیرت کدے میں کھڑا سوچتا ہوں
مجھے کیا طلب ہے،
میں کیا چاہتا ہوں!
کبھی دشت میں جا کے
تپتی ہوئی ریت پر دوڑنا چاہتا ہوں
کبھی موج بن کر
کناروں سے سر پھوڑنا چاہتا ہوں
کبھی شبنمی گھاس پر لیٹ کر
چاندنی اوڑھنا چاہتا ہوں
مجھے کیا طلب ہے
میں کیا چاہتا ہوں!
کہیں یہ مری مضطرب روح کا
بانکپن تو نہیں ہے؟
کہیں دل نئی منزلوں کی طرف
گامزن تو نہیں ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔پیاسے کو شبنم : مقبول عامر Maqbool Aamir


پھر اک بار
میں تیرے شہر میں‌آیا ہوں
لیکن اب کے
تجھ سے ملنا
جان سے جانا لگتا ہے!
پچھلے برس کا وہ منظر
اب تک میری آنکھوں ہے
جب تو مجھ کو رخصت کرنے
دروازے تک آئی تھی
اور تری بھیگی آنکھوں میں
میرا چہرہ لرز رہا تھا
ہجر کے اس بے انت سفر میں
پل دو پل کا میل تو ساجن
وصل نہیں ہے، خود سوزی ہے