Pages

خودغرض : احمد فواد Ahmad Fawad

چاہے شب بے نقاب ہو جائے
دن کی صورت خراب ہو جائے
آسماں چاہے صرف گالی ہو
یہ سمندر کا جام خالی ہو
چاہے پھولوں کے دل پریشاں ہوں
گاؤں برباد شہر ویراں ہوں
سارے دریا کہیں پہ کھو جائیں
چاند تارے یہ جا کے سو جائیں
سب شعاعیں سیاہ ہو جائیں
سارے نغمے تباہ ہو جائیں
حرف اڑ جائیں لفظ مر جائیں
پیڑ دنیا سے کوچ کر جائیں
قہقہے آنسوؤں کے ساتھ رہیں
راستے سارے خالی ہاتھ رہیں
تتلیاں کیکڑوں کی صورت ہوں
مکّھیاں حسن کی علامت ہوں
سب کتابیں جہاں سے اٹھ جائیں
فکر کے سب خزانے لُٹ جائیں
زندگی موت کی سیاہی ہو
ہر نئی سانس اک تباہی ہو
خانہ جنگی ہو یا بغاوت ہو
سب کو اک دوسرے سے نفرت ہو
صبح میں شام چاہے مدغم ہو
نظمِ کُل کائنات برہم ہو
وہ خدا ہو نہ یہ خدائی ہو
حاکم وقت چاہے نائی ہو
گرکے افلاک خاک ہو جائیں
کہکشاں جل کے راکھ ہو جائیں
بس مرا یار میرے ساتھ رہے
یونہی ہاتھوں میں اُس کا ہاتھ رہے

No comments:

Post a Comment