Pages

امید وہم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں : افتخار عارف Iftikhar Arif


امید وہم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا میں
اب اپنے حجرۂ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں
تمام خانۂ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سردست
بساط عافیت جاں الٹ کے دیکھتے ہیں
وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں
سُنا یہ ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمت حرف
سو ہم بھی اب قد و قامت میں گھٹ کے دیکھتے ہی

No comments:

Post a Comment