تُو نے ہی نام و نمود ِ ذات کی تدبیر کی
میں تو خوشبو ہوں مجھے خواہش نہیں تشہیر کی
میں تو خوشبو ہوں مجھے خواہش نہیں تشہیر کی
کچھ گنہ کم کر تولوں،پر،نامۂ اعمال سے
آنکھ ہٹتی ہی نہیں ہے کاتب ِ تقدیر کی
آنکھ ہٹتی ہی نہیں ہے کاتب ِ تقدیر کی
اپنے مطلب کی سبھی باتیں سمجھ لیتے ہیں لوگ
اب یہاں کوئی ضرورت ہی نہیں تفسیر کی
اب یہاں کوئی ضرورت ہی نہیں تفسیر کی
روح تیری دسترس میں ہے تو کیا تُو نے کیا
میں نے تو پھر بھی عمارت جسم کی تعمیر کی
میں نے تو پھر بھی عمارت جسم کی تعمیر کی
No comments:
Post a Comment