میں حیرت کدے میں کھڑا سوچتا ہوں
مجھے کیا طلب ہے،
میں کیا چاہتا ہوں!
کبھی دشت میں جا کے
تپتی ہوئی ریت پر دوڑنا چاہتا ہوں
کبھی موج بن کر
کناروں سے سر پھوڑنا چاہتا ہوں
کبھی شبنمی گھاس پر لیٹ کر
چاندنی اوڑھنا چاہتا ہوں
مجھے کیا طلب ہے
میں کیا چاہتا ہوں!
کہیں یہ مری مضطرب روح کا
بانکپن تو نہیں ہے؟
کہیں دل نئی منزلوں کی طرف
گامزن تو نہیں ہے؟
مجھے کیا طلب ہے،
میں کیا چاہتا ہوں!
کبھی دشت میں جا کے
تپتی ہوئی ریت پر دوڑنا چاہتا ہوں
کبھی موج بن کر
کناروں سے سر پھوڑنا چاہتا ہوں
کبھی شبنمی گھاس پر لیٹ کر
چاندنی اوڑھنا چاہتا ہوں
مجھے کیا طلب ہے
میں کیا چاہتا ہوں!
کہیں یہ مری مضطرب روح کا
بانکپن تو نہیں ہے؟
کہیں دل نئی منزلوں کی طرف
گامزن تو نہیں ہے؟
No comments:
Post a Comment