بھنور، برہم ہواہیں، گم کنارہ کیا بنے گا
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا
بڑوں پر منکشف تھی سہل انگاری ہماری
ہمیں اجداد کہتے تھے تمھارا کیا بنے گا
ہمیں اجداد کہتے تھے تمھارا کیا بنے گا
ابھی سے خال و خد روشن ہوئے جاتے ہیں اس کے
کبھی جو چاک پر آیا تو گارا کیا بنے گا
کبھی جو چاک پر آیا تو گارا کیا بنے گا
حرائے ذہنِ میں اترا ہے جبریلِ تخیل
بتاتا ہے کہ آئندہ نظارا کیا بنے گا
بتاتا ہے کہ آئندہ نظارا کیا بنے گا
نئے سالار سے زنداں میں بچے پوچھتے ہیں
ہمارے شہر کے فاتح ہمارا کیا بنے گا
ہمارے شہر کے فاتح ہمارا کیا بنے گا
ہوا کے شر سے دامن ہی بچائے تو بچائے
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا
No comments:
Post a Comment