آسماں تک مسئلے پھیلے ملے
چاند اور تارے سبھی الجھے ملے
چاند اور تارے سبھی الجھے ملے
اس سے کیا مطلب مقابل کون تھا
ہم سے جو جیسے ملا ویسے ملے
ہم سے جو جیسے ملا ویسے ملے
آج جانے کیا ہوا مدّت کے بات
جاننے والے کئی بندے ملے
جاننے والے کئی بندے ملے
خواب کے دریا میں غوطہ زن ہوا
کچھ پرانے کچھ نئے چہرے ملے
کچھ پرانے کچھ نئے چہرے ملے
سبز ہو جاتی ہے شاخِ نخلِ غم
جب بھی تنہائی میں ہم خود سے ملے
جب بھی تنہائی میں ہم خود سے ملے
سارے پس منظر الگ منظر الگ
چہرہ در چہرہ بہت چہرے ملے
چہرہ در چہرہ بہت چہرے ملے
No comments:
Post a Comment