Pages

مکاں اور مکیں : امجد اسلام امجد Amjad Islam Amjad


اتنی بڑی اِن دنیاؤں میں
اپنے نام کی تختی والی، ایک عمارت
کتنے دکھوں کی اینٹیں چن کر گھر بنتی ہے
پتھر پتھر جوڑ کے دیکھو
میں نے بھی اک گھر ہے بنایا
رنگوں، پھولوں، تصویروں سے اُس کو سجایا
دروازے کی لوح پہ اپنا نام لکھایا
لیکن اس کے ہر کمرے میں تم رہتے ہو

کرو، جو بات کرنی ہے : امجد اسلام امجد Amjad Islam Amjad


کرو، جو بات کرنی ہے
اگر اس آس پہ بیٹھے، کہ دنیا
بس تمہیں سننے کی خاطر
گوش بر آواز ہو کر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ، ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کو ایک لمحے کے لئے رُکنا نہیں ملتا
بٹھاؤ لاکھ تُم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت
بِنا دیکھے، بِنا ٹھہرے
جِسے تُم وقت کہتے ہو
دھندلکا سا کوئی جیسے زمیں سے آسماں تک ہے
یہ کوئی خواب ہے جیسے
نہیں معلوم کچھ اس خواب کی مہلت کہاں تک ہے
کرو، جو بات کرنی ہے

آٹوگراف : مجید امجد Majeed Amjad


کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے
کتابچے لئے ہوئے
کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں
ڈھلکتے آنچلوں سے بےخبر حسین لڑکیاں
مہیب پھاٹکوں کے ڈولتےکو اڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں چٹختی پسلیوں کے
پُر ہراس قافلے
گرے، بڑھے، مُڑے بھنور ہجوم کے
کھڑی ہیں یہ بھی راستے پہ اک طرف
بیاضِ آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بہ دم
کمان ابرواں کا خم
کوئی جب ایک نازِ بےنیاز سے
کتابچوں پہ کھینچتا چلا گیا
حروفِ کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی اگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز
نبض رُک گئی
وہ باؤلر ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا
وہ صفحہِ بیاض پر بصد غرورکلکِ گوہروں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری
میں اجنبی میں بے نشاں
میں پا بہ گل !
نہ رفعتِ مقام ہے نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل ۔۔۔۔۔ یہ لوحِ دل !
نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ س پہ کوئی نام ہے

۔۔ شبِ رفتہ : مجید امجد Majeed Amjad


ایک کوہستانی سفر کے دوران
تنگ پگڈنڈی ۔۔۔۔۔ سرِ کُہسار بل کھاتی ہوئی
نیچے، دونوں سمت، گہرے غار، منہ کھولے ہوئے
آگے، ڈھلوانوں کے پار اک موڑ اور اس جگہ
اِک فرشتے کی طرح نورانی پر تولے ہوئی
جھک پڑا ہے آکے رستے پر کوئی نخلِ بُلند
تھام کر جس کو گزر جاتی ہے آسانی کے ساتھ
موڑ پر سے ڈگمگاتے رہروؤں کے قافلے
ایک بوسیدہ خمیدہ پیڑ کا کمزور ہاتھ
سینکڑوں گرتے ہوؤں کی دستگیری کا امیں !
آہ ! اُن گردن فرازانِ جہاں کی زندگی
اِک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنہیں حاصل نہیں
۔۔۔ شبِ رفتہ

تیرے آفاق بھی ہیں حیرت میں : یوسف حسن Yusuf Hassan


تیرے آفاق بھی ہیں حیرت میں
رمز کیا ہے مری حقیقت میں
تو کہاں سے پکارتا ہے مجھے
میں تجھے ڈھونڈتا ہوں خلقت میں
ہم نہ اپنے دیے بجھائیں گے
کچھ بھی ہو رات کی مشیت میں
کوئی پہرا نہیں فصیلوں پر
شہر اندر سے ہے حراست میں
ایک دنیا ہے تیرے ساتھ مگر
کس کا دل ہے تری رفاقت میں
منہ چھپائے پھریں گے سورج سے
جو ستارے ہیں شب کی خلعت میں

تری آواز کیا آنے لگی ہے : یوسف حسن Yusuf Hassan


تری آواز، کیا آنے، لگی ہے
گلی میں دھوپ لہرانے لگی ہے
تری باہوں میں مرنے کی تمنا
مجھے جینے پہ اکسانے لگی ہے
زوال عمر میں تیری محبت
مجھے کچھ اور مہکانے لگی ہے
ترے قرب رواں کی چاہ مجھ کو
سر آفاق پھیلانے لگی ہے
میں اپنی راکھ سے نکلا تو یوسف
ستاروں تک خبر جانے لگی ہے

پہلے میں تیری نظر میں آیا : یوسف حسن Yusuf Hassan


پہلے میں تیری نظر میں آیا
پھر کہیں اپنی خبر میں آیا
میں ترے ایک ہی پل میں ٹھہرا
تو مرے شام و سحر میں آیا
ایک میں ہی تری دھن میں نکلا
ایک تو ہی مرے گھر میں آیا
تو مرا حاصل ہستی ٹھہرا
میں ترے رخت، سفر میں آیا
وصل کا خواب اجالا بن کر
شام کی راہگذر میں آیا
ہم جو اک ساتھ چلے تو یوسف
آسماں گرد سفر میں آیا

ایک جنگجو قبیلے کے شاعر کا گیت : مقبول عامر Maqbool Aamir

یہ حرب کرب کی فضا
یہ کشت و خوں کا سلسلہ
ہر ایک آنکھ میں چھپی
ہوئی ہے ایک شعلگی
ٹنگے ہوئے ہیں چار سو
کمان، تیغ اور تبر
لگا ہے ہر مکان پر
لہو میں تر بتر علم
مگر مری متاع جاں
بس اک چراغ، اک قلم
مرے خدا کو ہے خبر
مری رگوں میں بھی رواں
یہی لہو، یہی اثر
جوان ہوں، دلیر ہوں
پر اس کے باوجود میں
سفیر امن و خیر ہوں
مگر یہ میرے اردگرد
شر کی قدر و منزلت!
مرے خدا میں کیا کروں!
مرے خدا میں کیا کروں!

اپنے ہمزاد سے : مقبول عامر Maqbool aamir


میں حیرت کدے میں کھڑا سوچتا ہوں
مجھے کیا طلب ہے،
میں کیا چاہتا ہوں!
کبھی دشت میں جا کے
تپتی ہوئی ریت پر دوڑنا چاہتا ہوں
کبھی موج بن کر
کناروں سے سر پھوڑنا چاہتا ہوں
کبھی شبنمی گھاس پر لیٹ کر
چاندنی اوڑھنا چاہتا ہوں
مجھے کیا طلب ہے
میں کیا چاہتا ہوں!
کہیں یہ مری مضطرب روح کا
بانکپن تو نہیں ہے؟
کہیں دل نئی منزلوں کی طرف
گامزن تو نہیں ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔پیاسے کو شبنم : مقبول عامر Maqbool Aamir


پھر اک بار
میں تیرے شہر میں‌آیا ہوں
لیکن اب کے
تجھ سے ملنا
جان سے جانا لگتا ہے!
پچھلے برس کا وہ منظر
اب تک میری آنکھوں ہے
جب تو مجھ کو رخصت کرنے
دروازے تک آئی تھی
اور تری بھیگی آنکھوں میں
میرا چہرہ لرز رہا تھا
ہجر کے اس بے انت سفر میں
پل دو پل کا میل تو ساجن
وصل نہیں ہے، خود سوزی ہے

آج کی رات : فیض احمد فیض Faiz Ahmad Faiz


آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم
اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکرِ فردا اتار دے دل سے
عمر رفتہ پہ اشکبار نہ ہو
عہدِ غم کی حکایتیں مت پوچھ
ہو چکیں سب شکایتیں مت پوچھ
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ

اب کے دیکھیں راہ تمھاری : فیض احمد فیض Faiz Ahmad Faiz


اب کے دیکھیں راہ تمھاری
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات
تھم گئے آنسو
تھک گئیں اکھّیاں
گزر گئی برسات
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات
کب سے آس لگی درشن کی
کوئی نہ جانے بات
کوئی نہ جانے بات
بیت چلی ہے رات
چھوڑو غم کی بات
تم آؤ تو من میں اترے
پھولوں کی بارات
بیت چلی ہے رات
اب کیا دیکھیں راہ تمھاری
بیت چلی ہے رات
(فلم، “جاگو ہُوا سویرا”)

آج بازار میں پابجولاں چلو : فیض احمد فیض Faiz Ahmad Faiz


چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست اَفشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تَکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے؟
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے؟
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہوں آئیں یارو چلو

اس نے تراشا ایک نیا عذرِ لنگ پھر : عزیز نبیل Azeez Nabeel


اس نے تراشا ایک نیا عذرِ لنگ پھر
میں نے بھی یارو چھیڑ دی اک سرد جنگ پھر
لایا گیا ہوں پھر سے سرِمقتلِ حیات
ہونے لگا بدن سے جدا انگ انگ پھر
ثابت ہوا کہ تو بھی نہیں مستقل علاج
لگنے لگا ہے روح کے ملبے کو زنگ پھر
یوں لامکاں تو اپنا ستارہ کبھی نہ تھا
یہ کیا ہوا کہ کٹ گئی اپنی پتنگ پھر
پیاسے لبوں کو یا تو سمندر نصیب کر
یا ہو عطا علاقۂ پر خشت و سنگ پھر
جب تو فصیلِ شب سے پکارے گا رات بھر
تب میں فصیلِ جاں سے اُتاروں گا زنگ پھر
إس بار تو خدا کی قسم کچھ نہیں کہا
کیوں اُڑ گیا جناب کے چہرے کا رنگ پھر

اس شہر میں اے کاش نکلتا کوئی سورج : عزیز نبیل Azeez Nabeel


اس شہر میں اے کاش نکلتا کوئی سورج
مدّت ہوئی میں نے نہیں دیکھا کوئی سورج
وہ ریت کے ذرّوں پہ بکھرتی ہوئی اک شام
وہ دور سمندر میں سمٹتا کوئی سورج
تب صبح نمودار ہوئی ناز و ادا سے
جب رات کی پیشانی پہ چمکا کوئی سورج
کیوں شب کی سیاہی کا اثر بڑھنے لگا ہے
کیا ہو گیا بستی سے روانہ کوئی سورج
پھرتا ہے جنونی سا کبھی شہر کبھی دشت
بے سمتیء حالات کا مارا کوئی سورج
اڑنے لگے آکاش پہ جلتے ہوئے تارے
جب شام ڈھلے ہار کے ڈوبا کوئی سورج

آسماں تک مسئلے پھیلے ملے : عزیز نبیل Azeez Nabeel


آسماں تک مسئلے پھیلے ملے
چاند اور تارے سبھی الجھے ملے
اس سے کیا مطلب مقابل کون تھا
ہم سے جو جیسے ملا ویسے ملے
آج جانے کیا ہوا مدّت کے بات
جاننے والے کئی بندے ملے
خواب کے دریا میں غوطہ زن ہوا
کچھ پرانے کچھ نئے چہرے ملے
سبز ہو جاتی ہے شاخِ نخلِ غم
جب بھی تنہائی میں ہم خود سے ملے
سارے پس منظر الگ منظر الگ
چہرہ در چہرہ بہت چہرے ملے

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم : محسن نقوی Mohsin Naqvi


تیرے ملنے کا اک لمحہ
بس اک لمحہ سہی – لیکن
وفا کا بے کراں موسم
ازل سے مہرباں موسم
یہ موسم آنکھ میں اترے
تو رنگوں سے دہکتی روشنی کا عکس کہلائے
یہ موسم دل میں ٹھہرے تو
سنہری سوچتی صدیوں کا گہرا نقش بن جائے
ترے ملنے کا اک لمحہ
مقدر کی لکیروں میں دھنک بھرنے کا موسم ہے
آج بھی شام اداس رہی
آج بھی تپتی دھوپ کا صحرا
ترے نرم لبوں کی شبنم
سائے سے محروم رہا
آج بھی پتھر ہجر کا لمحہ صدیوں سے بے خواب رتوں کی
آنکھوں کا مفہوم رہا
آج بھی اپنے وصل کا تارا
راکھ اڑاتی شوخ شفق کی منزل سے معدوم رہا
آج بھی شہر میں پاگل دل کو
تری دید کی آس رہی
مدت سے گم صم تنہائی، آج بھی میرے پاس رہی
آج بھی شام اداس رہی

آؤ وعدہ کریں : محسن نقوی Mohsin Naqvi

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
دیدۂ دل کی بے انت شاہی میں ہم
زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم
اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو
فکر کے مو قلم سے تراشی ہوئی
اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو
اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو، اپنی تقدیر کو
یوں سنبھالیں گے ، مثلِ چراغِ حرم
جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی
بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں
پہرہ داروں کی صورت چھپائے رک ہے
جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم -- پھر ارادہ کریں
جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں
جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں
جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں
جتنے چہروں کے مرجان زرداب ہیں
جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں
جتنے گل رنگ مہتاب گہنا گئے -- جتنے معصوم رخسار
مرجھا گئے
جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں
سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں، تازگی بخش دیں
بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم
مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم
دیدہ و دل کی بے انت شاہی میں ہم
زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لئے
اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل
صرف آرائشِ پیرہن کے لئے ، مسکرائیں گے رنج و غم
دہر میں
اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لئے
طعنِ احباب، سرمایہ کج دل، بجز اغیار سہہ لیں گے
فن کے لئے
آؤ وعدہ کریں
سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئے
جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے
دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم
آسمانوں سے اونچا رکھیں گے عَلم
آؤ وعدہ کریں

ابھی تو محبوب کا تصور : ابن انشاء Ibn-e-Insha

بھی تو محبوب کا تصور بھی پتلیوں سے مٹا نہیں تھا
گراز بستر کی سلوٹیں ہی میں آسماتی ہے نیند رانی
ابھی ہو اول گزرنے پایا نہیں ستاروں کے کارواں کا
ابھی میں اپنے سے کہہ رہا تھا شب گزشتہ کی اک کہانی
ابھی مرے دوست کے مکاں کے ہرے دریچوں کی چلمنوں سے
سحر کی دھندلی صباحتوں کا غبار چھن چھن کے آ رہا ہے
ابھی روانہ ہوئے ہیں منڈی سے قافلے اونٹ گاڑ یوں کے
فضا میں شور ان گھنٹیوں کا عجب جادو جگا رہا ہے

January 8, 1952 : ابن انشاء Ibn-e-Insha

آج کچھ لوگ گھر نہیں آئے
کھو گئے ہیں کہاں تلاش کرو
دامن چاک کے ستاروں کو
کھا گیا آسماں تلاش کرو
ڈھونڈ کے لاؤ یوسفوں کے تیس
کارواں کارواں تلاش کرو
ناتواں زیست کے سہاروں کو
یہ جہاں وہ جہاں تلاش کرو
گیس آنسو رلا رہی ہے غضب
چار جانب پولس کا ڈیرا ہے
گولیوں کی زبان چلتی ہے
شہر میں موت کا بسیرا ہے
کون دیکھے تڑپنے والوں میں
کون تیرا ہے کون میرا ہے
آج پھر اپنے نونہالوں کو
صدر میں وحشیوں نے گھیرا ہے
حکم تھا ناروا گلہ نہ کرو
خون بہنے لگے جو راہوں میں
یعنی سرکار کو خفا نہ کرو
پی گئے بجلیاں نگاہوں میں
آج دیکھو نیاز مندوں کو
خون ناحق کے داد خواہوں میں
سرنگوں اور خموش صف بستہ
کتنے لاشے لیے ہیں باہوں میں
آستینوں کے داغ دھو لو گے
قاتلوں آسماں تو دیکھتا ہے
چین کی نیند جا کے سو لو گے
تم کو سارا جہاں تو دیکھتا ہے
قسمت خلق کے خداوند
تم سے خلقت حساب مانگتی ہے
روح فرعونیت کے فرزندو
بولو بولو۔۔۔۔۔۔جواب مانگتی ہے

اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے : عرش صدیقی Arsh Siddiquie

اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے

اے مری قوم کے جاں باز جوانو! : سعد اللہ شاہ Saadullah Shah


اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو
اپنے بگڑے ہوئے حالات کو جانو، اٹھو
وقت آیا ہے کہ اب حشر اٹھانا ہے تمہیں
اپنے محسن کو یزیدوں سے بچانا ہے تمہیں
نعرہ زن ہو کے ہر اک قصر گرانا ہے تمہیں
حاکمِ وقت سے ٹکرانے کی ٹھانو، اٹھو
اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو
جس نے اس ملک کو ناقابلِ تسخیر کیا
خوابِ کہسار کو شرمندۂ تعبیر کیا
اور پھر خواہشِ خوش رنگ کو تصویر کیا
اُس کی خاطر اے حمیّت کے نشانو، اٹھو
اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو
پھر وہی معرکۂ کرب و بلا ہے، دیکھو
شبِ تیرہ میں کوئی دیپ جلا ہے، دیکھو
پھر کوئی ملک بچانے کو چلا ہے، دیکھو
بس یہی رنگِ بقا ہے مری مانو، اٹھو
اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو
ہم نہ چھوڑیں گے کبھی اُس کے وفاداروں کو
ہم کہ پہچانتے ہیں اُس کے اداکاروں کو
کر ہی دیں ملک بدر، ملک کے غداروں کو
اب سرِ معرکہ اے شعلہ بیانو، اٹھو
اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو

ایک نظم-2 : سعد اللہ شاہ SaadUllah Shah

آنکھیں سیپیاں ہی تو ہوتی ہیں
یہ بھی تو اشک لے کر
دل کی گہرائی میں ڈوب جاتی ہیں

سخنِ حق کو فضیلت نہیں ملنے والی : افتخار عارف Iftikhar Arif


سخنِ حق کو فضیلت نہیں ملنے والی
صبر پر دادِ شجاعت نہیں ملنے والی
وقت معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل
ڈوبا جاتا ہے کہ مہلت نہیں ملنے والی
زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک
اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی
راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
ہوس لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حُرمت نہیں ملنے والی
گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم
ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں ملنے والی
زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی

انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے : افتخار عارف Iftikhar Arif


انہیں میں جیتے انہیں بستیوں میں مر رہتے
یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون تھے کہ اپنے گھر رہتے
پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے
پر اپنے ہم شجروں سے تو باخبر رہتے
بس ایک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورت خاشاک در بدر رہتے
میرے کریم ! جو تیری رضا، مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے

امید وہم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں : افتخار عارف Iftikhar Arif


امید وہم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا میں
اب اپنے حجرۂ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں
تمام خانۂ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سردست
بساط عافیت جاں الٹ کے دیکھتے ہیں
وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں
سُنا یہ ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمت حرف
سو ہم بھی اب قد و قامت میں گھٹ کے دیکھتے ہی

تُم : امجد اسلام امجد Amjad islam Amjad

تُم جس خواب میں آنکھیں کھولو
اُس کا رُوپ امر
تُم جس رنگ کا کپڑا پہنو
وہ موسم کا رنگ
تُم جس پھول کو ہنس کر دیکھو کبھی نہ وہ مرجھائے
تُم جس حرف پہ انگلی رکھ دو
وہ روشن ہو جائے

تجدید : امجد اسلام امجد Amjad islam Amjad


اب میرے شانے سے لگ کر کس لیے روتی ہو تم
یاد ہے، تم نے کہا تھا
جب نگاہوں میں چمک ہو
لفظ جذبوں کے اثر سے کانپتے ہوں اور تنفس
اس طرح الجھیں کہ جسموں کی تھکن خوشبو بنے
تو وہ گھڑی عہدِ وفا کی ساعتِ نایاب ہے
وہ جو چپکے سے بچھڑ جاتے ہیں لمحے ہیں مسافت
جن کی خاطر پاؤں پر پہرے بٹھاتی ہیں
نگاہیں دُھند کے پروں میں اُن کو ڈھونڈتی ہیں
اور سماعت اُن کی میٹھی نرم آہٹ کے لئے
دامن بچھاتی ہے۔
اور وہ لمحہ بھی تم کو یاد ہو گا
جب ہوائیں سرد تھیں اور شام کے میلے کفن پر
ہاتھ رکھ کر
تم نے لفظوں اور تعلق کے نئے معنی بتائے تھے، کہا تھا
“ہر گھڑی اپنی جگہ پر ساعتِ نایاب ہے
حاصل عمرِ گریزاں ایک بھی لمحہ نہیں
لفظ معنی ہے جو ہر لحظہ نئے چہرے بدلتا ہے
جانے والا وقت سایہ ہے
کہ جب تک جسم ہے یہ آدمی کے ساتھ چلتا ہے
یاد مثلِ نطقِ پاگل ہے کہ اس کے لفظ معنی سے تہی ہیں
یہ جسے تم غم، اذیت، درد، آنسو
دُکھ وغیرہ کہہ رہے ہو
ایک لمحاتی تاثر ہے تمہارا وہم ہے
تم کو میرا مشورہ ہے، بھول جاؤ تم سے اب تک
جو بھی کچھ میں نے کہا ہے
اب میرے شانے سے لگ کر کس لئے روتی ہو تم

بارش اور ہم : امجد اسلام امجد Amjad islam Amjad


ارش تھی، ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام
تم نے لیا تھا کانپتے ہونٹوں سے میرا نام
میں نے کہا تھا، آؤ یونہی بھیگتے چلیں
اِن راستوں میں دیر تلک گھومتے رہیں
میری کمر میں ہاتھ یہ پھولوں سا ڈال کر
کاندھے پہ میرے رکھے رہو یونہی اپنا سر
ہاتھوں کو میں کبھی،کبھی بالوں کو چوم لوں
دیکھو میری طرف تو میں آنکھوں کو چوم لوں
پانی کے یہ جو پھول ہیں رُخ پر کھلے ہوئے
اِن میں دھنک کے رنگ ہیں سارے گھلے ہوئے
ہونٹ سے اِن کو چُنتے رہیں خوش دِلی کے ساتھ
تارے ہمیں تلاش کریں، چاندنی کے ساتھ
یونہی کسی درخت کے نیچے کھڑے رہیں
بارش کے دیر بعد بھی لپٹے کھڑے رہیں
تم نے کہا تھا “آؤ چلیں، رات آ گئی
دل جس سے ڈر رہا تھا، وہی بات آ گئی
بیتے سمے کی یاد ہی رستوں میں رہ نہ جائے
یہ دل کہیں وصال کی بارش میں بہہ نہ جائے
کچھ دیر ایک چُپ سی رہی درمیاں میں
گرہیں سی جیسے پڑنے لگی ہوں زباں میں
یک دم گِرا تھا پھول کوئی شاخسار سے
دیکھا تھا تم نے میری طرف اضطرار سے
بارش میں بھیگتے ہوئے جھونکے ہوا کے تھے
وہ چند بے گمان سے لمحے، بلا کے تھے
نشہ سا ایک چاروں طرف پھیلتا گیا
پھر اس کے بعد میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا

نوحہ : اختر حسین جعفری Akhter Hussain Jaffri


اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
سبز سجّادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرفِ عبادت یاد تھے، پَو پھٹے تک انگلیوں پر گن لیے
اور دیکھا ___ رحل کے نیچے لہو ہے
شیشئہ محفوظ کی مٹی ہے سرخ
سطر ِ مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
یاالٰہی مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
ایلچی کیسے بلادِ مصر سے
سوئے کنعاں آئے ہیں
اِک جلوس ِ بے تماشا گلیوں بازاروں میں ہے
تعزیہ بردوش انبوِہ ہوا
روزنوں میں سر برہنہ مائیں جس سے مانگتی ہیں، منّتوں کا اجر،
خوابوں کی زکٰوۃ
سبز سجّادوں پہ بیٹھی بیبیو!
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
اب سمیٹو مشک و عنبر، ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو اور ردائیں نوکِ پا تک کھینچ لو
کچّی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں

جہاں دریا اترتا ہے : اختر حسین جعفری Akhter Hussain Jaffri


سرشکِ خوں، رُخِ مضموں پہ چلتا ہے تو اک رستہ
نکلتا ہے
ندی دریا پہ تھم جائے
لہو نقطے پہ جم جائے تو عنوانِ سفر ٹھہرے
اسی رستے پہ سرکش روشنی تاروں میں ڈھلتی ہے
اسی نقطے کی سُولی پر پیمبر بات کرتے ہیں
مجھے چلنا نہیں آتا
شبِ ساکن کی خانہ زاد تصویرو! گواہی دو
فصیلِ صبحِ ممکن پر مجھے چلنا نہیں آتا
مِرے چشموں میں شورِ آب یکجا بر شگالی ہے
ندی مقروض بادل کی
میرا دریا سوالی ہے
رگِ حرفِ زبوں میں جو چراغِ خوں سفر میں ہے
ابھی اس نقطہً آخر کے زینے تک نہیں آتا
جہاں جلّاد کا گھر ہے
جہاں دیوارِصبحِ ذات کے رخنے سے نگہِ خشمگیں
بارُود کی چَشمک ڈراتی ہے
جہاں سُولی کے منبر پر پیمبر بات کرتے ہیں
اب اِن باتوں کے سِکّے جیب کے اندر کھنکتے ہیں کہ جن پر
قصرِ شاہی کے مناظر
اسلحہ خانوں سے جاری حکم کندہ ہیں
بھرے بازار میں طفلِ تہی کیسہ پریشاں ہے کہ اس کے پاوٌں
ٹکسالوں کے رستے سے ابھی نا آشنا ہیں
اور اس کا باپ گونگا ہے
ندی رک رک کے چلتی ہے
تکلّم رہن رکھنے سے سفر آساں نہیں ہوتا
ہُوا پسپا جہاں پانی
جہاں موجوں نے زنجیرِ وفا پہنی، سپر گرداب کی رکھ دی
عَلَم رکھے ، قلم رکھے
خفا بادل نے جن پایاب دریاوٌں سے منہ موڑا
جہاں تاراج ہے کھیتی
جہاں قریہ اجڑتا ہے
طنابِ راہ کٹتی ہے کہیں خیمہ اکھڑتا ہے
وہاں سے دُور ہے ندی
وہاں سے دُور ہے بچہ کہ اس کے پاوٌں
دریاوٌں کے رستے سے ابھی نا آشنا ہیں
اور اس کا باپ گونگا ہے
اسے چلنا نہیں آتا
فصیلِ صبحِ ممکن پر اسے چلنا نہیں آتا
سحر کے پاس ہیں منسوخ شرطیں صلحنامے کی
صبا ، درسِ زیاں آموز کی تفصیل رکھتی ہے
کسی تمثیل میں تم ہو
کسی اجمال میں ، مَیں ہوں
کہیں قرطاسِ خالی کا وہ بے عنوان ساحل ہے
جہاں آشفتگانِ عدل نے ہتھیار ڈالے ہیں
بہت ذاتیں ہیں صدموں کی
کئی حصے ہیں سینے میں نفس گم کردہ لمحے کے
کئی طبقات ہیں دن کے
کہیں صبحِ مکافاتِ سخن کے منطتقے میں تم مقیّد ہو
کسی پچھلے پہر کے صلحنامے کی عدالت میں
کڑی شرطوں پر اپنے دستخط کے روبُرو مَیں ہوں
سنو ، قرطاسِ خالی کے سپر انداز ساحل سے
ہَوا کیا بات کرتی ہے
اُدھر ، اُس دوسرے ساحل سے جو ملّاح آیا ہے
زمینیں بیچتی بستی سے کیا پیغام لایا ہے
کوئی تعزیر کی دھمکی؟
کوئی وعدہ رہائی کا؟
کوئی آنسو؟
کوئی چٹّھی ؟

خودغرض : احمد فواد Ahmad Fawad

چاہے شب بے نقاب ہو جائے
دن کی صورت خراب ہو جائے
آسماں چاہے صرف گالی ہو
یہ سمندر کا جام خالی ہو
چاہے پھولوں کے دل پریشاں ہوں
گاؤں برباد شہر ویراں ہوں
سارے دریا کہیں پہ کھو جائیں
چاند تارے یہ جا کے سو جائیں
سب شعاعیں سیاہ ہو جائیں
سارے نغمے تباہ ہو جائیں
حرف اڑ جائیں لفظ مر جائیں
پیڑ دنیا سے کوچ کر جائیں
قہقہے آنسوؤں کے ساتھ رہیں
راستے سارے خالی ہاتھ رہیں
تتلیاں کیکڑوں کی صورت ہوں
مکّھیاں حسن کی علامت ہوں
سب کتابیں جہاں سے اٹھ جائیں
فکر کے سب خزانے لُٹ جائیں
زندگی موت کی سیاہی ہو
ہر نئی سانس اک تباہی ہو
خانہ جنگی ہو یا بغاوت ہو
سب کو اک دوسرے سے نفرت ہو
صبح میں شام چاہے مدغم ہو
نظمِ کُل کائنات برہم ہو
وہ خدا ہو نہ یہ خدائی ہو
حاکم وقت چاہے نائی ہو
گرکے افلاک خاک ہو جائیں
کہکشاں جل کے راکھ ہو جائیں
بس مرا یار میرے ساتھ رہے
یونہی ہاتھوں میں اُس کا ہاتھ رہے

تریاق میں لہو کی بوندیں : علی اکبر ناطق Ali Akbar natiq

 ایک بد بخت سپیرے کی سیہ میّت پر
پھیلتی رات، اُترتے ہوئے سایوں کا ہجوم
جیسے اُجری ہوئی بستی میں نحوست کے عذاب
ہر طرف ناچتی پھرتی ہوں جہاں بدروحیں
قرن ہا قرن سے اوڑھے تھیں خباثت کے نقاب
رانڈ جوگن، کہ ہوئی رقص کناں اوّلِ شب
رات کے پچھلے پہر زور سے سینہ پیٹا
ایسے ماتم میں کھڑی تھی کہ غصیلی ناگن
گھر کے پالے ہوئے سانپوں کا کلیجہ کھایا
اور سینے میں بھرا حاسدِ بد خُو کا عناد
چیختی ہے تو لرز جاتا ہے وحشت کا بدن
شدّتِ خوف سے تن جاتی ہیں چھاتی کی رگیں
پی گئی زہر جو پیالوں میں بھرا تھا اُس نے
اور ڈسنے لگی آئے ہوئے غم خواروں کو
نیلگوں جسم پہ اُگ آئے پھپھولے لاکھوں
ہر بُنِ مُو سے اُٹھی سانس دھویں کی صورت
سُرمئی دھوپ میں پھیلا ہوا بدبو کا غبار
عمر بھر خستہ ستونوں سے لپٹ کر جو پڑھے
دردِ زہ میں ہیں گرفتار ہزاروں منتر
سڑتی لاشوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں گھر میں
سوکھے پیڑوں سے اُتر آئے گِدہوں کے بادل
سخت چونچوں سے اُکھیڑیں گے بدن کے ریشے
وائے خاموش رہے کتنے برس چارہ گراں
آج تریاق میں شامل ہیں لہو کی بوندیں

بے یقین بستیاں : علی اکبر ناطق Ali Akbar Natiq


وہ اک مسافر تھا، جا چکا تھا
بتا گیا تھا کہ بے یقینوں کی بستیوں میں کبھی نہ رہنا
کبھی نہ رہنا کہ اُن پہ اتنے عذاب اتریں گے جن کی گنتی عدد سے باہر
وہ اپنے مُردے تمھارے کاندھوں پہ رکھ کے تم کو جُدا کریں گے
تم اُن جنازوں کو قریہ قریہ لیے پھرو گے
فلک بھی جن سے ناآشنا ہے جنہیں زمینیں بھی رد کریں گی
وہ کہ گیا تھا ہمیشہ ذلت سے دُور رہنا
کہ بدنصیبوں کا رزقِ اوّل اُنہیں زمینوں سے پیدا ہوتا ہے
جن زمینوں پہ بھورے گِدّہوں کی نوچی ہڈی کے ریزے بھکریں
تم اپنی رائے کو استقامت کی آب دینا
جسے پہاڑوں کی خشک سنگیں بلندیوں سے خراج بھیجیں
غلام ذہنوں پہ ایسی لعنت کی رسم رکھنا
جو تیری نسلوں پھر اُن کی نسلوں پھر اُن کی نسلوں تلک بھی جائے
تمہیں خبر ہو، شریف لوگوں کی اُونچی گردن لچک سے ایسے ہی بے خبر ہے
سوادِ غربت میں خیمہ گاہوں کی جیسے گاڑی ہوں خشک چوبیں
کبھی نہ شانے جـُھکا کے چلنا
کہ پست قامت تمہارے قدموں سے اپنے قدموں کو جوڑ دیں گے
وہی نحوست تمہیں خرابوں کی پاسبانی عطا کرے گی
سراب آنکھوں کے راستوں سے تمھارے گردوں میں ریت پھینکیں گے اور سینے کو کاٹ دیں گے
وہ کہ گیا تھا یہی وہ علت کے مارے وحشی ہیں جن کی اپنی زباں نہیں ہے
یہ جھاگ اُڑاتے ہیں اپنے جبڑوں سے لجلجے کا تو گڑگڑاہٹ کا شور اُٹھتا ہے
اور بدبو بکھیرتا ہے
یہی وہ بدبخت بے ہنر اور بے یقیں ہیں کہ جن کی دیّت نہ خوں بہا ہے
سو اِن کی قربت سے دور رہنا، نجاتِ دل کا سبب بنے گا
وہ اک مسافر تھا کہ گیا ہے

جو وہم ہے، ڈر ہے، پسِ پردہ نہیں نکلا : اختر عثمان Akhter Usman


جو وہم ہے، ڈر ہے، پسِ پردہ نہیں نکلا
بستی سے ابھی تک وہ بگولہ نہیں نکلا
اس قریہءِ زہرہ کے لئے گھومی زمیں بھی
اس گیند کے نقشے میں ہو خطّہ نہیں نکلا
ہندہ کی طرح جسم ادھیڑا تھا ہوا نے
لیکن مرے سینے سے کلیجا نہیں نکلا
کچھ ہم ترے میعار پہ پورے نہیں اترے
کچھ تو بھی کہ مشہور تھا جیسا، نہیں نکلا
گو شہر میں پیمائشِ قد عام ہے لیکن
اک شخص بھی ہم قامتِ سایہ نہیں نکلا
پوشاکِ رفوکار کے کیا کہنے کہ اختر
اک تار گریبان میں اپنا نہیں نکلا

تپش کا ہر حوالہ نار زادہ چھین لیتا ہے : اختر عثمان Akhter Usman


تپش کا ہر حوالہ نار زادہ چھین لیتا ہے
ٹھٹھرتی رات میں ہم سے لبادہ چھین لیتا ہے
طلب سے بڑھ کے دیتا ہے کوئی بنیا ہمیں قرضہ
ہمارے سیر ہونے پر افادہ چھین لیتا ہے
جسے بھی مدتوں محروم رکھا جائے روٹی سے
وہ موقعہ ہاتھ آنے پر زیادہ چھین لیتا ہے
کوئی لکھتے ہوئے تھکتا نہیں اس عمر کے پرچے
کسی سے ممتحن اوراقِ سادہ چھین لیتا ہے
نفاظِ حبس میں اختر بہاریں کب پنپتی ہیں
یہ قاتل تو ہوا کا استفادہ چھین لیتا ہے